اللّٰہ کی عطاء اور ہماری عقلِ ناقص

Allah's gift and our poor intellect

چند دن قبل کی بات ہے، صبح گھر سے نکل رہا تھا۔ اپنے گھر میں ایک سبق آموز واقعہ رونما دیکھا۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا جسکی عمر تقریبا سوا دو سال کے قریب ہے،میں اور والد محترم گھر سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ والد صاحب نے عادت کے مطابق اس بچے کے ہاتھ میں دس کا نوٹ تھمادیا یہ کہتے ہوئے کہ: ''لے بیٹا چیز کھا لینا'' 

وہ دس کے نوٹ کی خوشی میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اچھلتا کودتا دس کا نوٹ لہراتے ہوئے اپنی بچکانہ زبان میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا، اور اپنی ماں اور دادی کو دکھا رہا تھا۔ اسکے چہرے پر خوشی دیکھ کر میری محبت پدری بھی جوش میں آ گئی اور میں نے جیب سے بیس کا نوٹ نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمادیا،اور دس کا نوٹ اسکے ہاتھ سے لے لیا۔ 

یکدم بچے کا چہرہ مرجھاے ہوئے پھول کی طرح ہوگیا۔ وہ بیس کے نوٹ کو تعجب خیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے الٹنے پلٹنے لگا۔ میں حیرانی کی وادیوں میں سر پٹک رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ بجائے پہلے سے ذیادہ خوش ہونے کہ، یہ بالکل ایسا ہوگیا جیسے کوئی خزانہ لٹ گیا ہو۔

 اسی وقت اس نے روتے ہوئے بیس کا نوٹ میری طرف بڑھادیا اور دس کا نوٹ مانگ رہا تھا کہ، مجھے وہی نوٹ چاہئے جو دادا نے دیا تھا۔ اسکی ماں نے اسے بہت دیر تک سمجھایا کہ،یہ ابا نے پیسے دیے ہیں یہ ذیادہ ہیں، مگر اس کی نظر میں اُسی کی اہمیت تھی جسے اسکی سمجھ اجازت دے رہی تھی۔  

بالآخر اسکی ضد پر میں نے دس کا نوٹ اسکے حوالے کیا اور گھر سے نکلنے لگا۔ابھی گھر کی دہلیز سے میرا ایک قدم ہی باہر نکلا تھا کہ میرے دماغ میں ایک گھنٹی سی بجی۔ جس منظر کو ابھی کچھ لمحے قبل میں مذاق اور بچے کی شرارت سمجھ رہا تھا، اس منظر میں ایک چھپا سبق من جانب اللہ سُجھایا گیاتھا۔ 

 میرے دماغ میں احساس کا ایک بلب جلا جس طرح دو گھنٹے بعد یکدم بجلی آتی ہے،اور جسم میں ایک لہر دوڑتی ہے۔ میرے جسم میں بھی احساس کی لہر گردش کرنے لگی کہ، ہماری عقل بھی اس بچے کی طرح ناقص ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں ذیادہ۔ 

جب اللہ ہم سے کچھ لیتا ہے تو ہماری نظر بھی اُس پر ہوتی ہے جو ہاتھ سے چلا گیا۔ اسمیں ہم اتنے اندھے ہوتے ہیں کہ وہ نظر نہیں آتا جو اللہ ہم کو دے چکا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا ناقص فہم اپنی پوری دنیا اسی کو سمجھ چکا ہوتا ہے جو ہاتھ سے چلا گیا۔ 

کیونکہ ہم ظاہری دھوکے والی آنکھ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں بہتر نظر آرہا ہوتا ہے، اور بہترین جو اللہ ہمیں دے چکا ہوتا ہے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جو گیا ہے اس پر ہم واویلا مچا دیتے ہیں اور اس واویلے کے شورو غل میں جس نعمت پر شکر بجا لانا چاہیے اسکو یکسر بھلا دیا جاتاہے۔

لہذا ہمیں ہر حال میں نظر اللہ پر رکھنی چاہیے۔ جب ایک ماں اور باپ اپنی اولاد کیلئے اچھا سوچتے ہیں تو وہ رب جو ستر ماؤں سے ذیادہ چاہتا ہے وہ اپنے بندے کے ساتھ برا کیوں چاہے گا۔ کمی ہماری عقل و شعور کی ہے۔ ہمیں صرف وہ نظر آتا ہے جو دھوکے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔

اللہ اگر کوئی چیز ہم سے لیتا ہے، تو اس سے بہتر عطاء بھی کرتا ہے لیکن ہماری عقل اس بچے کی طرح ہے جو صرف وہی دیکھ رہی ہوتی ہیں جو نظر آرہا ہوتا ہے۔ اس دھوکے میں اللہ کی محبت نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ اللہ ہم سے ذیادہ  جانتے ہیں کہ ہمارے حق میں کس وقت کیابہتر ہے۔

جب نظریں اور دل کا یقین اللہ پر ہوگا تو ہماری زندگی میں شکر جیسی نعمت جنم لے گی، اور  جب شکر ہوگا تو اللہ کا

. وعدہ ہے کہ نعمتوں میں اضافہ ہوگا