کیا عدالت صرف عوام کے لئے ہے؟


قاضی شریک بن عبید اللہ عباسی دور میں کوفے کے قاضی تھے، ایک عورت ان کے پاس یہ شکایت لے کر آئی کہ کوفہ کے حاکم موسیٰ بن عیسیٰ (خلیفہ مہدی کے چچا) اس کا باغ خریدنا چاہتے تھے۔


جب وہ اپنا باغ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئی، تو انہوں نے اپنے غلاموں کو حکم دیا، جنہوں نے باغ کے حدود اور نشانات مٹا دیئے اور اس کو امیر موسیٰ کے باغ میں ملا دیا۔


قاضی شریک نے امیر موسیٰ کے ہاں کہلوا بھیجا کہ وہ عدالت میں عورت کے ساتھ حاضر ہوں۔


امیر موسیٰ نے پولیس افسر کو قاضی کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے گزارش کرے کہ وہ اس معاملے میں دخل دینے سے باز رہیں۔


قاضی نے پولیس افسر کو پکڑ کر قید کر دیا۔


جب امیر موسیٰ کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے بعض افراد کو بھیجا، جنہوں نے قاضی کو ان کے اس فعل پر ملامت کی۔


قاضی شریک نے ان لوگوں سے کہا کہ امیر نے کیوں اپنے آپ کو عدالت کی حاضری سے بالاتر سمجھا، کیا عدالت صرف عوام کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ہے؟  عدالت بلاشبہ بڑے اور چھوٹے کے درمیان فرق نہیں کرے گی اور تم نے عدالت کے معاملے میں مداخلت کی ہے، ضروری ہے کہ تم کو اس کی سزا دی جائے۔


پھر قاضی نے ان لوگوں کو قید کرنے کا حکم دیا۔


اس کے بعد امیر موسیٰ اپنے محافظ سواروں کے ساتھ قید خانہ گئے اور قیدیوں کو بزور طاقت نکال لائے۔


قاضی شریک سفر کر کے بغداد گئے تا کہ خلیفہ مہدی سے ملیں اور اس سے یہ کہیں کہ وہ ان کو قضاء کے عہدے سے الگ کر دے۔


انہوں نے خلیفہ سے کہا: خدا کی قسم، میں نے بنو عباس سے قاضی کا عہدہ نہیں مانگا تھا، خود انہوں نے مجھے عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا اور انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم با اختیار اور آزاد ہوں گے۔ اگر ہمیں قاضی بنایا گیا ہے، تو ہم اپنے فیصلے پوری طرح عدل کے مطابق کریں گے، مگر اب قاضی کے عہدے پر باقی رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے، جبکہ ہم دیانت دارانہ فیصلہ کرنے میں بے بس ہیں۔


پھر امیر موسیٰ نے قاضی سے ملاقات کی اور ان سے مہربانی کی درخواست کی۔

قاضی شریک نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا حل صرف یہ ہے کہ وہ تمام لوگ دوبارہ قید خانے میں لوٹائے جائیں  جن کو قید کئے جانے کا حکم دیا تھا۔


چنانچہ امیر موسیٰ نے مجبور ہو کر تمام لوگوں کو دوبارہ قید خانے میں واپس کر دیا اور خود عورت کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوئے۔


پھر قاضی شریک نے یہ فیصلہ دیا کہ امیر موسیٰ عورت کا باغ اسے لوٹائے اور جو حدود اور نشانات ڈھا دیے گئے تھے، ان کو دوبارہ قائم کرے۔


اب امیر کے پاس قاضی کا حکم بجا لانے کے سوا چارہ نہ تھا۔