اسلام میں طلاق یافتہ عورت کی شادی کروانے کی حکمت


when daughters are widowed or divorced.


   اسلام میں طلاق یافتہ عورت  کی شادی کروانے کی حکمت


 اسلام میں بیوہ یا مطلقہ کے دوسرے نکاح کو عیب نہیں


جب بیٹیاں بیوہ یا طلاق یافتہ ہوجائیں  تو پھر گھر نہیں بٹھائی جاتیں

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب

 (ان کی بیٹی)حفصہ بیوہ ہوگئیں۔۔

 اور ان کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی جو رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور بدر میں شرکت کرنے والے تھے۔۔

مدینہ میں انتقال کرگئے۔۔

 تو میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا اور

 (اپنی بیوہ بیٹی)حفصہ کا ذکر کیا۔۔

 اور ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں۔۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں غور کرکے جواب دوں گا۔۔

میں کئی رات ٹھہرا رہا۔۔

 پھر ملاقات ہونے پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ مجھے فی الحال نکاح کرنے پر اطمینان نہیں ہوا۔۔

پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں۔۔

 تو میں (اپنی بیوہ بیٹی) حفصہ کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں۔۔

 حضرت ابوبکر خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔۔

 مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اس سرد مہری سے اس سے بھی زیادہ رنج ہوا۔۔

جتنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انکار سے ہوا تھا۔۔

 میں کئی راتیں ٹھہرا رہا کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے حفصہ کے نکاح کا پیغام بھیجا۔۔

 میں نے فورا ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا۔۔

 اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے تو کہنے لگے کہ شاید تم کو میرا جواب نہ دینا ناگوار گزرا ہوگا۔۔

 میں نے کہا ایسا ہی ہے۔۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ میں نے تم کو اس وجہ سے جواب نہ دیا تھا کہ رسول اللہ کا ان کا تذکرہ کرنا میرے علم میں آیا تھا۔۔

اور میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔

ہاں اگر رسول اللہ ﷺ حفصہ سے نکاح کا ارادہ ترک کردیتے تو میں ان سے نکاح کرلیتا۔۔

( صحیح البخاری رقم الحدیث 4005 کتاب المغازی) 

ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی طرح خود ہی اپنی بیوہ بیٹی کے نکاح کا پیغام پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیا۔۔

اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ خلفائے راشدین میں سے ہیں۔۔

جس سے پتہ چلا کہ بیوہ یا مطلقہ کے دوسرے نکاح کو عیب نہیں سمجھنا چاہیے ۔۔

اور یہ بھی پتہ چلا کہ لڑکی والوں یا لڑکی کے سر پرستوں کو خود کسی لڑکے یا اس کے سر پرست کو نکاح کا پیغام دینا جائز ہے۔۔

 اور یہ عمل غیرت و حیاء کے خلاف نہیں۔۔


مگر آج کل لڑکی والوں کی طرف سے خود کسی جگہ نکاح کا پیغام بھیجنا عیب سمجھا جاتا ہے۔۔

اور اگر کوئی جواب نہ دے تو ہم اسے اپنی غیرت کا مسئلہ بنالیتے اور ہمیشہ کی قطع تعلقی  بن 

جاتی ہے۔


یہ بھی پڑھیں


بیٹوں کی زندگی داؤ پر نہ لگائیں