بیٹوں کی زندگی داؤ پر نہ لگائیں


Don't risk your daughter's life


بیٹوں کی زندگی داؤ پر نہ لگائیں


ننھی سی میری بیٹی خدیجہ مٹھی میں ایک موتی دبائے میرے پاس آئی۔


بابا میرے کون سے ہاتھ میں موتی ہے؟


میں جان گیا تھا کہ کس ہاتھ میں ہے۔


اس کی ننھی سی مٹھی کے کونےسے وہ جھلک رہا تھا۔ اس نے ہنستے ہوئے مٹھی کھول دی۔ ننھی سی ہتھیلی پر موتی رکھا تھا۔


اس نے پھر اس موتی کو اسی مٹھی میں دبایا اور پوچھا کہ بابا اب بتائیں,


میں نے پھر مٹھی بتا دی۔ وہ موتی اسی میں تھا۔ اس نے خوشی سے قہقہ اڑایا , بابا جیت گئے۔


میں نے دانستہ طور پر اگلی بار دوسری مٹھی کا کہا۔ وہ پریشان اور کنفیوژ ہو گئی۔


مجھے معلوم تھا کہ موتی اس کی کون سی مٹھی میں نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ جیت جائے۔ یہاں معاملہ الٹ تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں جیت جاؤں۔


وہ بول پڑی, بابا دوسری مٹھی بتائیں ناں۔ میں اسی مٹھی کے لئے بضد رہا, بولی بابا پلیز دوسری مٹھی کہہ دیں ناں۔


وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا باپ ہار جائے۔


واقعی بیٹیاں نہیں چاہتی ہیں کہ ان کا باپ ہار جائے


خدیجہ جیسی چار سال کی بچی نہیں چاہتی کہ اس کا باپ ہار جائے۔ وہ مٹھی بدلنے پر بضد ہوتی ہے۔ وہ خود ہار کر باپ کی جیت پر فخر اور خوشی سے جھومتی ہیں۔


یہی خوبی ہے جس کے سبب بیٹیاں اپنی قربانیاں خود چنتی ہیں۔


ماں باپ کے بول نبھاتی ہیں۔ مان نبھاتی ہیں۔


کتنے ہی لوگوں کو جانتا ہوں جو زندگی کے مس میچ تھے۔ سر پھینک کر,سر تسلیم خم اور زندگی

 ختم, نہ خواہشات رہیں نہ انہیں پورا کرنے والا۔


اپنے ماں باپ کے گھر کی شہزادی مٹی میں رل گئی۔


بہت سی بیٹیاں ماں باپ, دادا, دادی ,نانی نانا کی زبانیں دیے جانے کے سبب گونگی بن

 گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں باپ اپنی اولاد کا اچھا سوچتے ہیں۔ اچھے وقت اور بہتر

 زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔


مگر خدانخواستہ وقت کے تھپیڑوں کا سامنا ہو تو وہی بیٹی ماں باپ کی زبان کا مان رکھتی ہے۔

 خود ہار جاتی ہے مگر والدین کی جیت پر سمجھوتہ نہیں کرتی ہے۔


خود کو ہار کر والدین کو جتوانے کا اہتمام کرتی ہے۔


یاد رکھیئے دی گئ زبانیں ,وعدے, لارے ضرور نبھائیں ۔۔۔


مگر کسی کی زندگی کو داؤ پر نہ لگائیں جو خود تو ہار سکتی ہے مگر اپنے باپ کو کبھی نہیں ہارنے

 دیتی ہے۔


باپ کی ہار کا سوچ کر اسے بالکل بھی نہیں بتاتی ہے کہ اس کا جیون ساتھی نہیں محض اس کا

 "جیون ساتھ" ہی ہے


اس کا گھر نہیں مکان ہے۔ اس کی زندگی نہیں محض کسی کو دی گئی زبان اور اس کا پاس ہے


زبان گونگی بن جائے تو کسی کو نہیں بتاتی کہ دکھ اور تکلیف کیا ہے


اپنی جگہ پر مگن, بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ وہی ہیں جو اس کو سنبھالا دیتے

 ہیں۔ اس کے لئے خوش قسمت ہونا شرط ہے۔۔۔


Tags