گرمیوں کی چھٹیاں

Summer vacation


 گرمیوں کی چھٹیاں - دل کو چھو لینے والی کہانی


ایک بچے کے والدین ہر سال اسے ٹرین کے ذریعے اُس کی دادی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے  کے لیے لے جاتے اور پِھر

 وہ اسے چھوڑ کر اگلے دن واپس آجایا کرتا۔  پِھر ایک سال ایسا ہوا کہ بچے نے والدین سے کہا کہ میں اب بڑا ہو گیا ہوں اگر

 اِس سال میں دادی کے پاس اکیلا چلا جاؤں تو کیسا رہے گا؟


والدین نے مختصر بحث کے بعد اتفاق کرلیا اور پھر مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے اور والد نے جونہی کُچھ سفرکی

 ہدایات دینا شروع کیں تو بیٹا اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہنے لگا اباجان! میں ہزار مرتبہ یہ ہدایات سُن چُکا ہوں
ٹرین کے روانہ ہونے سے ایک لمحہ پہلے اُس کے والد اُس کے قریب آئے اور اُس کے کان میں سرگوشی کی ”یہ لو اگر تُم خوفزدہ ہو

 یا بیمار ہو تو یہ تُمہارے لیے ہے " اور اپنے بچے کی جیب میں کُچھ ڈال دیا۔


بچہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں اکیلا بیٹھ گیا اور سفر شروع ہوگیا۔ وہ کھڑکی سے زمین کی خوبصورتی کو دیکھتا رہا اور اپنے

 اردگرد اُٹھنے والے اجنبیوں کا شور سنتا رہا  کبھی اپنی سیٹ سے اُٹھ کر کیبن سے  باہر نکلتا تو کبھی اندر چلا آتا یہاں تک کہ ٹرین

 کے   گارڈ نے بھی حیرت کا  اظہار کیا اور اُس سے بغیر کِسی ہمسفر کے اکیلے سفر کرنے کے بارے سوال کیا ِ۔


اسی طرح  ایک عورت نے اُسے اداس دیکھ کر گھورا۔ آہستہ آہستہ لڑکا شدید الجھن کا شکار ہوتا رہا یہاں تک کہ اُس نے

 محسوس کیا کہ اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پِھر وہ خوفزدہ ہو گیا یہاں تک کہ وہ اپنی کرسی پر سے گر گیا اور اس کی آنکھیں

 آنسوؤں سے بھر گئیں اور اُس لمحے اُسے اپنے باپ کی سرگوشی یاد آئی کہ فلاں لمحے میرے باپ نے میری جیب میں کُچھ ڈالا

 تھا۔ اُس نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے جیب میں تلاشی کی تو اُسے چھوٹا سا کاغذ مِلا اُس نے جب اُس کاغذ کو کھولا تو لکھا تھا

 ”بیٹا! میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں“ 

یہ الفاظ پڑھتے ہی گویا اُس کی روح لوٹ آئی


زِندگی بھی ایسی ہی ہے ہم اپنے بچوں کے پروں کو جب کُھلی فضاء میں چھوڑتے ہیں تو اُنہیں خُود پر اعتماد دلاتے ہیں لیکن

 جب تک ہم زندہ ہیں ہمیں ہمیشہ آخری کیبن میں موجود رہنا چاہیے اِس لیے کہ یہ اُن کے لیے تحفظ کے احساس کا ذریعہ ہے۔