درویشوں کے روپ میں ڈاکو


درویشوں کے روپ میں ڈاکو




ایک شہر میں اتفاقیہ چند ڈا کو جا پہنچے، آپس میں کہنے لگے کہ ہوشیاری سے کام لینا چاہیے تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں۔
  
اُن کے سردار نے کہا کہ سب کے سب درویش صورت بن جاؤ۔ 
 
وہ بولے: حضور یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
 
 
سردار نے جواب دیا: سب کپڑے رنگوالو اور ہاتھ میں ایک تسبیح لے کر سبحان اللہ! سبحان اللہ!      کرتے رہو۔
 
جہاں بھی جاؤ    سوائے سبحان اللہ کے اور کچھ زبان پر مت لاؤ۔
  
 
چنانچہ سب شہر میں داخل ہو کر مہمان سرا میں ٹھہرے، ایک مکان میں سارے حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے اور درمیان میں سردار 
 بھی ایک لمبی چوڑی تسبیح لے کر بیٹھ گیا۔
 
 
سب کے سب سوائے سبحان اللہ کے لب کشائی نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ تمام شہر میں مشہور ہوگیا کہ مہمان سرا میں 
 ایک درویش صاحب باہر سے تشریف لاتے ہیں، سوائے ذکر ِخدا کے ان کی زبان پر اور کچھ شغل نہیں ہے۔
 
 
شہر کے سب باشندے دُور سے ان سے مصافحہ کرنے لگے اور اپنی حاجتیں بھی ظاہر کرنے لگے۔
 
 
اس شہر کے بادشاہ نے بھی ایک دن مع فوج کے آکر عرض کیا کہ درویش صاحب ہماری زہے قسمت کہ آپ نے ہمارے شہر 
 میں قدم رنجہ فرمایا، ہم کو بھی فیض حاصل ہوگا اور سب کی دعوت کی کہ آج غریب خانہ پر تشریف لائیں۔درویش صاحب
 نے بھی دعوت قبول کرلی۔
 
 
بادشاہ کا ایک لڑکا مدت سے مرضِ فالج میں مبتلا تھا، بہت علاج کیا، مگر کچھ نفع نہیں ہوا۔
 
 
بادشاہ نے کھانا کھلانے کے بعد درویش صاحب سے یہ تمنا ظاہر کی کہ آپ مقبول ِ بارگاہ ہیں، ہمارے اس لڑکے کے حق میں
 دعائے خیر کیجئے، تاکہ اللہ پاک اس کو شفا بخشے، کیونکہ اس کے سوا میرا اور کوئی فرزند نہیں، جس کو دیکھ کر میں خوش ہوں۔
 
درویش صاحب مع کل مُریدین کے ہاتھ اٹھا کر نہایت عجز و انکسار سے دُعا کرنے لگے۔
 
 
اے بار ِ خدایا! اگرچہ ہم سب گنہگار ہیں، لیکن تیرے بنائے ہوئے بندے تو ہیں، تیرا  در چھوڑ کر کہاں گریہ وزاری کریں، آج
 ہماری لاج تو ہی رکھنے والا ہے۔
 
 

ادھر ان کا رونا تھا، اُدھر دریائے رحمت خداوندی کا جوش میں آنا اور اسی وقت دُعا قبول ہوئی اور شہزادے نے آرام پایا۔

 
 
بس اس رحمت ِ الٰہی کو دیکھ کر درویش دل میں کہنے لگا کہ ہم نے لوگوں کے دکھانے کے لیے یہ روپ بنا کر عابدوں کی سی 
 صورت بنائی تھی، اس ریا کاری میں جب یہ نتیجہ برآمد ہوا، تو معلوم نہیں، اگر ہم خاص اللہ کے واسطے ہی ذکر الٰہی کرتے
 اورسچے طریقے سے عابد بن جاتے، خدا جانے کیا نفع ہوتا۔
  
یہ کہہ کر سب نے اللہ کا نعرہ مارا اور شہر سے دو تہائی کی جگہ جا پڑے اور سب کے سب ولی کامل بن گئے۔ 
 

:سبق


کبھی کبھی نقل بھی اصل بن جاتا ہے




:یہ بھی پڑھیں