بچوں پر طلاق کے اثرات


بچوں پر طلاق کے اثرات


اس میں اولاد کی کیا غلطی

میاں بیوی میں تلخ کلامی ہوئی ۔۔۔

کوئی گھریلو وجہ تھی ۔۔۔جو ہر گھر میں ہر روز ہوتی رہتی ہے۔۔۔

دونوں کا ایک بیٹا بھی تھا۔۔۔۔

صابر نے اپنی بیوی زویا کو گالی دی۔۔۔۔تم سے جب سے شادی ہوئی ہے میری زندگی جہنم ہو گئی ہے۔۔۔

زویا بھی چلا کر بولی ۔۔۔تم نے مجھے اتنا درد دیا ہے ۔۔میں اب دعا کرتی ہوں ۔۔۔مجھے موت آ جائے ۔۔اب تمہارے ساتھ ایک سانس بھی نہیں لے سکتی میں۔۔۔

جھگڑا کسی بڑی بات پہ نہیں تھا ۔۔۔

 سال کا بیٹا۔۔۔۔ماں باپ کو جھگڑتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔       

بیٹا بہت پریشان تھا۔۔۔۔کبھی ماں کا ہاتھ پکڑتا تو کبھی باپ کا ۔۔۔باپ سے جب برداشت نہ ہوا تو ۔۔۔اٹھایا ۔۔۔ڈنڈا۔۔۔اور زویا کو مارنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔

زویا چیخنے چلانے لگی ۔۔۔

چیخوں کی آواز سن کر ۔۔۔اہل محلہ آ گئے ۔۔۔

انھوں نے آ کر زویا کو چھڑوایا ۔۔۔

زویا کے سر سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔بیٹا ڈرا سہما ۔۔۔دروازے کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔۔۔۔۔

صابر نے چلا کر کہا اس میں تم کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔

تین بار طلاق بولا ۔۔۔اور زویا بیٹے کو لیئے میکہ آ گئی۔۔۔۔

بیٹا تھا کہ اس کے دل میں ایک عجیب سا ڈر گھر کر چکا تھا ۔۔۔۔وہ سب سے ڈرنے لگا تھا ۔۔۔4 سال کا بیٹا۔۔۔وہ امی کی گود میں لیٹا ہوا تھا ۔۔۔امی کا دوپٹہ منہ پہ اوڑھے سو جاتا ۔۔۔

ماں سے ایک پل کے لیئے بھی جدا نہ ہوتا۔۔۔

ادھر ۔۔۔باپ نے کورٹ میں کیس کر دیا بیٹا میں اپنے پاس رکھوں گا۔۔۔

کورٹ سے آیا خط موصول ہوا۔۔۔

زویا کے بھائی نے خط پڑھا ۔۔۔۔بتایا۔۔۔صابر نے بیٹے کو اپنے پاس رکھنے کے لیئے کیس دائر کیا ہے۔۔۔

اگلے ہفتے سنوائی ہے۔۔۔۔

بیٹا ماں کے پلو سے لگا ہوا۔۔امی بابا کیا کہتے ہیں۔۔

بیٹا اب 6 سال کا ہو چکا تھا ۔۔۔

ماں نے بتایا ۔۔کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔

ماں باپ کو جدا ہوئے 2 سال گزر گئے تھے۔۔لیکن بیٹا آج بھی جب وہ جھگڑا یاد کرتا تو وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا ۔۔۔

پہلی سنوائی ہوئی ۔صابر کا وکیل کافی بڑا وکیل تھا ۔۔۔کیس  صابر کے حق میں جا رہا تھا ۔۔۔

زویا محسوس کر رہی تھی میں بیٹے کو ہار جاوں گی۔۔۔۔

زویا گھر آئی ، بیٹا اذان ماں سے کہنے لگا۔۔ہم کیوں ابو کے پاس جاتے ہیں وہاں۔۔ابو مجھے کہہ رہا تھا تیری امی گندی ہے اس کے پاس نہ رہو۔۔

بیٹے نے ماں کا منہ چوما ۔۔۔ہلکا سا مسکرایا  میری امی سوہنی ہے گندی نہیں ہے پاپا گندا ہے۔۔

ماں کی آنکھ سے آنسو بہنے لگے ۔بیٹا جو ابھی چھے سال کا تھا ۔۔۔اپنے ننھے ہاتھوں سے ماں کے آنسو صاف کرنے لگا۔۔ماما کیوں رو رہی ہو ۔۔میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گا ۔

 بیٹا ماں کی گود میں لیٹ گیا۔۔۔

اتنے میں زویا کا بھائی آیا۔۔زویا کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔

ہم کیس ہار جائیں گے۔۔

اذان کو اس کے باپ کے حوالے کرنا پڑے گا اس کا وکیل بہت بڑا وکیل یے۔۔

زویا خاموش ہو گئی۔۔۔بیٹے کا منہ چومنے لگی۔۔۔

کبھی پاوں چومتی کبھی ہاتھ کبھی سر۔۔۔ اذان سویا ہوا تھا۔۔۔زویا نے زور سے سینے سے لگایا۔۔۔۔اور رات بھر روتی رہی۔۔۔۔

اذان نے دکان سے آئس کریم لی اور فریج میں رکھی نانی سے کہنے لگا  نانو میں آ کر کھاوں گا۔۔

ماں نے اذان کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا۔۔اور آہستہ سے بولی۔۔اذان بیٹا ماما ساتھ نہ بھی ہوئی تو    

کھانا ٹائم پہ کھایا کرنا۔۔ضد نہ کیا کرنا۔۔

اور دکان کی گندی چیزیں نہ کھایا کرنا۔۔۔روز دانت کو برش کیا کرنا۔۔۔ماما تم کو روز دیکھا کرے گی یہاں سے۔۔

بیٹا نہیں سمجھ پا رہا تھا ماما ایسی باتیں کیوں کر رہی ہے۔

ماں نے ہاتھ پاوں چومے۔۔۔

آج فائنل سنوائی تھی عدالت میں۔۔

زویا۔۔۔بیٹے کو گود میں لیئے بیٹھی ہوئی تھی   دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

خیال یہی تھا کاش میں برداشت کر لیتی  آج  بیٹے سے جدا نہ ہوتی۔۔۔

بیٹے کی خاطر خاموش رہتی۔۔۔

ادھر۔۔۔کاروائی شروع ہوئی۔۔۔۔

جج صاحب نے لکھا فیصلہ سنایا۔۔۔

تمام دلیل سننے کے بعد۔۔۔ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کے۔۔۔

بیٹا اپنے باپ کے ساتھ رہے گا۔۔۔فیصلہ سنتے ہی ماں کا کلیجہ پھٹ گیا۔۔ماں بے ہوش ہو کر گر گئی۔۔

باپ آگے بڑھا بیٹے کو اٹھا لیا۔  

بیٹا باپ کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا   بیٹا چیخ چیخ کر رونے لگا   مجھے ماما پاس جانا ہے   مجھے ماما پاس جانا ہے۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔زویا کو ہوش آیا۔۔۔

ننگے پاوں دوڑتے ہوئے۔۔۔صابر کے پاس گئی۔۔اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بھیک مانگنے لگی۔۔۔صرف ایک بار مجھے میرے بیٹے کو سینے سے لگا لینے دو۔۔۔

لیکن وکیل نے پولیس والے سے کہا اس عورت کو ہٹاو یہاں سے۔۔۔

ماں بلک بلک کر رونے لگئ۔۔۔بیٹا تڑپ رہا تھا۔۔

وکیل مسکرا کر صابر سے کہنے لگا  مبارک ہو جناب آپ کیس جیت گئے۔۔صابر نے طے کردہ رقم وکیل کو دی اور چل دیا۔۔۔

بیٹا ماں کی جدائی میں روتا چیختا۔۔اسے باپ کا گھر جیل لگنے لگا تھا۔۔۔

ماں کی شادی  کسی اور سے ہو گئی۔۔باپ نے بھی دوسری شادی کر لی۔۔۔وقت گزرنے لگا۔۔

ماں اپنی زندگی میں مصروف ہو گئی۔۔باپ اپنی نئی بیوی کے ساتھ۔۔

اذان۔۔۔زندہ لاش بن کر جینے لگا ۔

اذان کا نہ کوئی قصور تھا نہ کوئی جرم تھا نہ کوئی گناہ۔۔ بے گناہ سزا پائی تھی اذان نے۔۔

نہ سکول پڑھ سکا۔نہ زندگی میں کوئی مقام حاصل کر سکا۔۔بلاخر باپ نے ایک ہوٹل پہ برتن دھونے پہ لگا دیا۔۔

میں آپ سب سے پوچھتا ہوں۔۔۔۔؟؟

کیا قصور ہوتا ہے ایسی اولاد کا۔۔؟؟

آپ میں اتنی برداشت نہیں ہوتی کہ ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کر دیا جائے۔۔۔صبر ختم ہو چکا ہے۔؟؟۔ لڑتے ہو۔۔ایک دوسرے پہ الزام لگاتے ہو   میں دونوں میاں بیوی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔

تم دونوں کی نفرت تمہاری اولاد کو کھا جاتی ہے۔۔

اور یقین اس کو بھی قاتل کا نام دیتا ہے۔۔۔

پہلی شادی میں ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت نہیں کرتے ہو۔۔اور دوسری شادی میں بڑی سے بڑی بات پہ کمپرومائز کر لیتے ہو۔۔۔

نہ جانے اج بھی کتنے بچے ماں باپ کی زہر آلود نفرت پہ قربان ہو رہے ہوں گے  جو بے گناہ برباد کر دیئے جائیں گے۔۔


خدا را ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔

شادی کے بعد میاں بیوی  کی سوچ کا ملنا ضروری نہیں ہے  کیوں کے  آپ لوگ دو الگ الگ انسان ہیں الگ سوچ ہے الگ خواہشات ہیں۔۔۔نکاح کا مقصد ہی دو الگ انسانوں کو یک جان کرنا ہے۔۔


طلاق ہی ہر مسلے کا حل نہیں ہے۔۔

آخر کار    دوسری شادی ناکام کیوں نہیں ہوتی اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔۔تو میں بتاتا ہوں آپ۔کو۔۔

دوسری شادی اس لیئے ناکام نہیں ہوتی۔۔کہ اس وقت ہم صبر کرنا سیکھ جاتے ہیں برداشت کرنا سیکھ جاتے ہیں۔۔۔

ایک دوسرے کی غلطی کو اگنور کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔

اگر ایسا ہی پہلی شادی میں کیا ہو تو۔۔۔اولاد۔۔۔خاک نہ ہو۔۔۔


میری تحریر پڑھ کر اگر کسی نے اپنی اولاد کو خاک ہونے سے بچا لیا تو میرا  مقصد مکمل ہو جائے گا۔



  ؎ یہ بھی پڑھیں








Tags