شہزادہ اور سبز پری کی کہانی

tale of prince and green fairy

 

 

کسی زمانے میں ایک بادشاہ کا بیٹا وزیر کے بیٹے کے ساتھ پڑھتا تھا ۔ ایک روز دونوں پڑھائی میں مصروف 

  تھے کہ شہزادہ  نے وزیر زادے سے کہنے لگا: اگر ہم پڑھتے پڑھتے یہیں سو گئے تو ہم میں سے

 جو پہلے اٹھے وہ دوسرے کو بھی جگا دے۔


پڑھتے پڑھتے آخر کار وہ دونوں لڑکے سو گئے۔ دوسرے روز وزیر زادے کی آنکھ پہلے کھل گئی اور

 اس نے وعدے کے مطابق شہزادے کو بھی جگا دیا۔ آنکھ کھلتے ہی شہزادے نے اپنے چاروں

 طرف دیکھا اور پھر اچانک زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر وزیر زادہ گھبرا گیا

 اور اس نے شہزادے سے رونے کا سبب جاننے کی کوشش کی مگر وہ کچھ بھی نہ بولا۔ اس کے

 رونے کی آواز سن کر ملکہ بھی آگئی۔ اس نے بھی پوچھا ، مگر شہزادہ تب بھی کچھ نہ بولا۔ بادشاہ

 نے بھی لاکھ کوشش کی مگر شہزادہ پھر بھی خاموش رہا۔

 

اس کی یہ حالت دیکھ کر بادشاہ پریشان ہوگیا اور اس نے وزیر زادے کو پھانسی کا حکم سنا دیا۔ بادشاہ

 کا خیال تھا کہ وزیر زادہ رات کو شہزادے کے کمرے میں سویا تھا اور اسی نے شہزادے کو کوئی

 ایسی بات کہی ہے جس کی وجہ سے شہزادے کو مسلسل چپ لگ گئی ہے۔


آخر وہ دن بھی آپہنچا جس روز وزیر زادے کو پھانسی دی جانی تھی۔ پھانسی گھاٹ کے نزدیک

 بہت سے لوگ جمع تھے جبکہ ایک طرف بادشاہ اور شہزادے سمیت وزیر بیٹھے تھے۔ جب جلاد اسے

 پھانسی کے پھندے کے قریب لے گئے تو شہزادے نے اپنی چپ توڑ ڈالی۔

 

اس نے کہا: ’’اسے کچھ مت کہیں، اس نے نہ تو مجھے کچھ ایسی ویسی بات کہی ہے اور نہ ہی مارا

ہے۔ کچھ دن پہلے رات سونے سے پہلے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے اٹھے گا وہ

 دوسرے کو بھی جگا دے گا۔ چونکہ اس کی آنکھ پہلے کھل گئی تو اس نے وعدے کے مطابق مجھے بھی

 جگا دیا ۔ جس لمحے اس نے مجھے جگایاا اس وقت میں ایک خواب دیکھ رہا تھا۔ میرے خوا ب اس

 قدر حسین اور حقیقی تھے کہ اس کے ٹوٹنے سے مجھے بہت صدمہ پہنچا اور یہی دکھ ہے جو مجھے خون

 کے آنسو رلا رہا ہے"۔

 

بادشاہ نے جب خواب سننے کی فرمائش کی تو شہزادہ بولا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسے

 شہر میں ہوں جہاں کی ہر چیز سبز  ہے اور شہر کے وسط میں ایک سبز  دریا بہہ رہا ہے۔ اس سبز  دریا

 کے کنارے ایک سبز  رنگ کا محل ے جہاں ایک سبز   پری کھڑی مسکرا رہی ہے۔ وہ سبز  پری اس

 قدر حسین تھی کہ میں پہلی ہی نظر میں اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ میں اس سے بات کرنے

 ہی لگا تھا کہ وزیر زادے نے مجھے جگا دیا۔ اس سبز   پری نے مجھ پر جادو سا کر دیا ہے۔ میری

 آنکھوں کے سامنے اس کا چہرہ ہٹتا ہی نہیں۔ مجھے اس وقت تک سکون نہیں مل سکتا جب تک

 میں سبز پری کو حاصل نہ کر لوں۔ لگتا ہے اب کبھی بھی میں سکھی نہ رہ پائوں گا۔


خواب سننے کے بعد بادشاہ نے فوراً وزیر زادے کو رہا کر نے کا حکم دیا مگر ساتھ ہی وہ شہزادے کے

 خواب بارے سوچ بچا ر کرنے لگا۔ کسی بھی باپ کی طرح وہ بھی اپنے بیٹے کو خوش و خر م دیکھنا

 چاہتا تھا۔ اس پریشانی میں اس نے شہزادے سے کہا۔ ’’یہ کام تو بہت مشکل ہے ؟اب ہم کیا

 جانیں کہ وہ سبز  شہر کہاں ہے؟ جس کے وسط میں سبز  دریا بہتا ہے۔ سبز  دریا کے کنارے سبز محل

 کہاں ہے؟ جہاں سبز  پری رہتی ہے۔ اسے ہم بھلا کہاں تلاش کریں گے؟

 

شہزادہ بولا: خواب میں نے دیکھا ہے لہٰذا اب سبز پری کی تلاش بھی مجھ ہی کو کرنی ہوگی‘‘ یہ کہنے

 کے بعد شہزادے نے بادشاہ سے سبز پری کو ڈھونڈنے کے لیے جانے کی اجازت مانگی۔

بادشاہ تو پہلے ہی پریشان تھا اب شہزادے کی روانگی کا سوچ کر گھبرا گیا۔ اس نے شہزادے کو

 مختلف حیلوں بہانوں سے روکنے کی کوشش کی مگر شہزادے کے دل و دماغ پر بس ایک ہی

 بھوت سوار تھا۔


آخر بادشاہ کو ہار مارننا پڑی۔ شہزادے کے جانے کے انتظامات ہونے لگے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ

 شہزادے کو اصطبل کا سب سے تیز رفتار گھوڑا دیا جائے۔

شہزادہ کئی دن اور راتیں مسلسل سفر میں رہا۔ آخر کار ایک خانقا ہ کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا

 گھوڑا روک لیا اور درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کر نے لگا۔ اسے وہاں بیٹھےابھی کچھ ہی دیر گزری تھی

 کہ ایک بزرگ بھی وہاں آپہنچے۔

 

کتنی ہی دیر دونوں خاموش بیٹھے رہے، پھر بزرگ بولے:نوجوان تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور

 ان جنگلوں میں کیو ں بھٹک رہے ہو؟

شہزادے نے انہیں اپنا خواب سنایا اور کہا کہ اب وہ اس سبز  پری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

بزرگ نے اسے تسلی دی اور کہا کہ وہ اس کی مدد کریں گے۔


رات کے وقت جب شہزادہ گہری نیند سو گیا تو بزرگ نے اپنے سامان سے مخصوص قسم کے

  لکڑی کے جوتے نکالے، انہیں اپنے پائوں میں ڈالا اور کہا،’’چل، چل کھڑا ویں چل،  سبز شہر میں چل‘‘۔ اگلے ہی لمحے وہ بزرگ سبز شہر میں کھڑے تھے۔

انہوں نے پھر کہا: چل چل کھڑا ویں چل، اس سبز دریا کو چل۔

آنکھ جھپکنے سے پہلے وہ سبز  دریا کے کنارے کھڑے تھے۔ کچھ دیر انہوں نے اس دریا کا نظارہ کیااور

 پھر بولے چل چل کھڑاویں چل، اس سبز  محل میں چل۔

اب وہ سب محل میں کھڑے تھے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے محل کے سبھی کمروں میں جھانکا۔

 آخر کار ایک کمرے میں انہیں سبز  پری مل گی جو اپنے بستر پر سو رہی تھی۔ پری کو دیکھ کر پہلے تو   بزرگ مسکرائے اور پھر بولے،

 چل چل کھڑاویں چل، اب خانقاہ کو چل۔ 


خانقاہ واپس پہنچ کر بزرگ سو گئے اور صبح اس کا بات کا ذکر شہزادے سے بھی نہ کیا۔ دوسری رات

 وہ بزرگ پھر سبز محل میں گئے اور وہاں کا دوبارہ جائزہ لیا۔ اسی طرح تین روز بیت گئے وہ ہر رات

 سبز محل میں پہنچ جاتے اور وہاں کا جائزہ لے کر واپس لوٹ آتے۔ اب وہ سبز محل اور وہاں کے

 مکینوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر چکے تھے ۔ چوتھے روز بزرگ نے شہزادے کو اپنے

 پاس بلایا اور کہا، ’’بیٹا سبز پری کو تو میں نے تلاش کر لیا ہے، میری مانو تو اسے بھول جائو، کیونکہ

 اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ جنات کے قبضے میں ہے۔

 

مگر شہزادہ سبز پری کو حاصل کرنے کی ضد پر اڑا رہا، اس نے بزرگ سے کہا: خدا کے لیے مجھے آپ

سبز  محل میں چھوڑ آئیں۔ اگر خدا کی مرضی ہو گی تو میں اسے حاصل کر لوں گا اور اگر خدا نے زندگی

 ہی اتنی لکھی ہے تو یہ میرا مقدر ۔


شہزادے کی بات سن کر بزرگ بہت خوش ہوئے اور اسے اپنی ایک کھڑاواں دی اور دوسری خود

 پہن کر بولے: ’’چل چل کھڑاویں چل، اس سبز شہر میں چل"۔


شہزادے کو بزرگ یہ کہہ چکے تھے کہ وہ اپنی آنکھیں بند کر لے۔ شہزادے نے آنکھیں بند کی ہوئی

 تھیں۔ 

اگلے ہی لمحے بزرگ نے آہستہ سے شہزادے کو آنکھیں کھولنے کا کہا۔ شہزادے نے حیرانی اور

 خوشی کے ملے جلے جذبا تکے ساتھ آنکھیں جو کھولیں تو خود کو ایک ایسے شہر میں پایا

 جہاں ہر شے سبز  تھی۔ شہزادے کی حالت دیکھ کر بزرگ مسکراتے رہے۔

 دیا۔  سبز شہر دیکھ کر

   شہزادہ بہت خوش ہوا بزرگ نے پھر کھڑائوں کو حکم دیا۔ 

’’چل چل کھڑاویں ، اس سبز  دریا کو چل۔‘‘


اب جو شہزادے نے آنکھیں کھولیں تو وہ سبز  دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ کچھ دیر تو وہ دونوں سبز

 دریا کے کنارے گھومتے رہے، اس کے بعد بزرگ نے کہا: ’’چل چل کھڑاویں چل، اس سبز محل

 میں چل۔ ‘‘ سبز  محل کا سن کر تو شہزادے کی حالت غیر ہونے لگی ۔ اب وہ فوراً سے پہلے سبز

 پری کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔

اسی لمحے وہ سبز  محل میں پہنچ گئے اور بزرگ شہزادے کو اس کمرے کی طرف لے گئے جہاں سبز پ ری

 قید تھی۔

 

شہزادے نے دروازے کی اوٹ سے کمرے میں جھانکا تو سامنے سبز  پری کا چہرہ نظر آیا ۔ سبز پری

 بین بجا رہی تھی مگر اس کی گود میں ایک ہیبت ناک دیو سر رکھے سو رہا تھا۔ یہ دیکھ کر شہزادہ گھبرا

 گیا۔ بزرگ نے اسے آہستہ سے کہا،  میں تمہیں منع کرتا رہا مگر تم ضد لگا بیٹھےتھے۔ یہ سن کر

 شہزادے کو جوش آگیا اور وہ سبز  پری کے سامنے چلا گیا۔

سبز  پری نے جو اسے دیکھا تو حیران رہ گئی۔ ایسے خوبصورت خوبرو ، شہزادے کو اس نے اس سے

 پہلے نہیں دیکھا تھا۔ سبز  پری کو شرماتا ہوا دیکھ کر شہزادے کے حوصلے بلند ہو گئے اور اس نے سبز

 پری سے کہا،

جس روز سے تجھے میں نے اپنے خواب میں دیکھا تھا اسی روز سے تیری تلاش میں بھٹک رہا

 ہوں۔ اب میں تجھے یہاں سے آزاد کروانے آیا ہوں۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گی؟


سبز  پری تو شہزادے کو دیکھتے ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے اثبات میں اپنا سر

 ہلایا اور پھر دیو کی طرف دیکھ کر گھبرا کر اشاروں سے شہزادے کو بتایا۔

جب تک یہ بین بجتی رہے گی دیو بھی سویا رہے گا ۔اگر بین بجنا بند ہو گئی تو دیو جاگ اٹھے گا اور

 تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا


شہزادے نے کہا ’’تم بے فکر رہو۔ تم مجھے یہ بین دے دو میں اسے بجاتا ہوں اور تم یہاں سے باہر

 چلی جائو۔ میں اس دیو سے نمٹ لوں گا۔


یہ سن کر سبز  پری کو یقین ہوگیا کہ جو میری خاطر اس دیو سے لڑنے کے لیے تیار ہے وہ واقعی مجھے

 چاہتا ہے۔ مگر سبز   پری اتنی سنگ دل نہ تھی کہ شہزادے کو مصیبت میں ڈال کر خود باہر چلی

 جاتی۔ شہزادہ اس سے بین لینا چاہتا تھا کہ بزرگ آگے بڑھے اور بولے۔

یہ بین مجھے دو، اسے میں بجاتا ہوں اور تم سبز  پری کو لے کر یہاں سے نکل چلو۔ میں بھی کچھ دیر

 بعد خانقاہ میں پہنچ جائوں گا۔


شہزادہ بھی خود غرض نہ تھا۔ اس نے جواب دیا، ’’اے بزرگ آپ کے مجھ پر پہلے ہی اتنے احسان ہیں۔ میں آ پکو مصیبت میں ڈال کر کیسے جاسکتا ہو"؟


بزرگ مسکرائے اوربولے ،  تمہیں معلوم ہے میرے پاس خدا کی کرامات کا تحفہ ہے۔ میں اس دیو

 کے قابو نہ آئوں گا۔

 شہزادے کو اطمینان ہوا کہ وہ بزرگ کی کرامات دیکھ چکا تھا۔ شہزادے کو راضی کرنے کے بعد بزرگ نے کہا، 

تم میری ایک کھڑائوں لے لو اور دونوں اپنا اپنا پائوں اس میں پھنسا لو ، یہ کھڑائوں تمہیں خانقاہ لے جائے گی ۔

سبز پری بولی، اے بزرگ میں تو خود اڑ کر جاسکتی ہوں اور شہزادے کو بھی اپنے ساتھ خانقاہ لے جائوں گی"۔ 

بزرگ نے سبز پری کو خانقاہ کا راستہ سمجھایا اور کہا، تم چلو اور میں تمہارے پیچھے آرہا ہوں۔


شہزادے نے بین بزرگ کے ہاتھوں میں تھما دی اور سبز پری کے ساتھ اس محل سے نکل آیا۔

کچھ دیر بعد بین بجانے کے بعد بزرگ نے اپنے پائوں میں کھڑاویں ڈال لیں اور بین کو فرش پر

 پھینک کر بولے:’’چل چل کھڑاویں چل، اس خانقاہ میں چل ’’دوسرے ہی لمحے بزرگ خانقاہ میں پہنچ گئے۔


بزرگ کو دیکھ کر شہزادہ اور سبز پری بہت خوش ہوئے۔ کچھ روز بزرگ کے پاس ٹھہرنے کے بعد

 شہزادہ سبز پری کو لے کر اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گیا۔


راستے میں سبز پری شہزادے سے کہنے لگی، ’’میں تمہارے وطن جا تو رہی ہوں مگر میری ایک شرط

 بھی ہے۔‘‘ جب شہزادے نے شرط کے بارے میں پوچھا تو سبز پری نے کہا۔

شرط یہ ہے کہ پہلے تم اپنے شہر سے باہر ایک محل تعمیر کروائو جو صرف ہم دونوں کے لیے ہوگا۔

 تمہارے خاندان کے کسی فرد کو اس محل میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

شہزادے نے سبز پری کی یہ شرط مان لی اور سبز پری کوبتایا کہ اس کے دادا نے ایک محل شہر سے

 باہر بنوایا تھا ، ہم دونوں اسی میں رہیں گے۔


جب دونوں شہر کے نزدیک پہنچے تو پہرے داروں نے شہزادے کے گھوڑے کو پہچان لیا۔

 شہزادے نے پہرے داروں سے کہا، بادشاہ سلامت کو اطلاع کر دو کہ ہم دونوں شہر سے باہر

 والے محل میں ٹھہریں گے۔ ہمیں ملنے کوئی نہ آئے میں خود آرام کرنے کے بعد باشاہ سلامت کی

 خدمت میں حاضر ہوں گا۔


بادشاہ کو پیغام بھجوا دیا گیااور شہزادہ سبز پری کے ہمراہ شہر سے باہر محل میں چلا گیا۔

دوسرے روز

 شہزادے نے اکیلے ہی بادشاہ کے حضور حاضری دی اور انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔

 بادشاہ کو تو صرف شہزادے کی خوشی عزیز تھی، وہ خوش تھا کہ اس کے بیٹے نے پانی منزل پالی ہے۔

 بادشاہ نے اپنے خاندان کے سبھی افراد کو شہزادے کے محل میں نہ جانے کی تاکید کر

 دی اور شہزادہ خوشی خوشی واپس سبز پری کے پاس چلا گیا۔


اس بات کو ابھی کچھ ہی روز گزرے تھے کہ ایک دن خاندان کی کچھ عورتیں اکٹھی ہو کر ملکہ کے

 پاس جا پہنچیں۔ انہوں نے ملکہ سے ایسی ایسی باتیں کیں کہ مجبوراً ملکہ کو ان عورتوں کو اپنے ساتھ

 لے کر شہزادے کے محل میں جانا پڑا گیا۔ ان عورتوں کی نظر جب سبز پری پر پڑی تو انہوں نے اس کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دئیے۔

اپنی تعریف سن کر سبز پری بولی،

ابھی میں خاک خوبصورت نظر آتی ہوں، اگر آپ میرا اصل روپ دیکھیں تو بس دیکھتی ہی رہ جائیں گی۔

ملکہ بولی:  تو پھر دیر کس بات کی ہے ، چل بیٹی جلدی سے تیار ہو کر آجا۔

سبز پری اپنے کمرے میں گئی اور اپنا اصل لباس پہن کر ان عورتوں کو سلام کرنے آئی۔ عورتیں

 واقعی اس کو دیکھتی ہی رہ گئیں۔ ا بھی سب پری کے حسن کو دیکھ کر حیران ہی ہو رہے تھے کہ

 سبز پری اڑ کر وہاں سے چلی گئی۔


جب شہزادے کو سبز پری کے چلے جانے کا علم ہو ا تو اس پر جیسے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ سبز پری

 کے فراق میں رو رو کر اس نے اپنا حال تباہ کر لیا۔ ایک روز غم میں نڈھال وہ بادشاہ کے پاس جا

 پہنچا اوربولا

سبز پری کے بغیر میں ایک پل بھی نہیں رہ سکتا۔ آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں دوبارہ سبز پری

 کی تلاش میں جاسکوں۔


بادشاہ سے بھی شہزادے کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی شہزادے کو

 جانے کی اجازت دے دی۔


شہزادہ سب کو الوداع کہہ کر پھر سے سبز پری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کئی دن کے سفر کے بعد

 وہ اسی خانقاہ میں پہنچ گیا جہاں اسے بزرگ ملے تھے۔ جب شہزادہ خانقاہ پہنچا تو وہ بزرگ ابھی وہیں

 موجود تھے جنہوں نے شہزادے کو سبز پری سے ملوایا تھا۔ شہزادے نے انہیں تمام رام کہانی

 سنائی اور ان سے ایک بار پھر مدد مانگی۔


اس کی باتیں سن کر بزرگ سوچ میں ڈوب گئے۔ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھے اور

 اپنی کھڑاویں پہن کر شہزادے کو پھر اسی سبز شہر میں لے گئے جہاں سبز دریا بہتا تھا اور جس کے

 سبز محل میں سبز پری مقید تھی۔

جب وہ سبز پری کے پاس پہنچے تو وہ کمرے میں اکیلی ہی تھی اسے دیکھتے ہی شہزادہ اس کی طرف

 لپکا اوربولا

شکر ہے اس ذات کا جس نے دوبارہ مجھے تم سے ملوا دیا۔ آئو اب ہم ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلتے ہیں۔

 شہزاد ے نے سبز پری کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ سبز پری بولی،

 میں تو پہلے بڑی مشکل سے تمہارے ساتھ چلی گئی تھی ۔ اب دیو نے ایسا جادو کر دیا ہے کہ

 جونہی میں اس محل سے نکلوں گی تو اسے معلوم ہو جائے گا۔ اب تو وہ ز یادہ دیر کے لیے مجھے

 اکیلا بھی نہیں چھوڑتا۔ وہ کچھ ہی دیر میں واپس آجائے گا۔ جب تک دیو زندہ ہے میں

 تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی۔

 سبز پری کو اس  بات کا یقین تھا کہ وہ مان بھی گئی تو بھی دیو ایسا ہونے نہیں دے گا۔


جب شہزادے نے سبز پری کی بات سنی تو اس کا چہرہ مر جھا گیا۔ بزرگ بھی اس کے پاس

 ہی کھڑے تھے۔ انہو ں نے

 شہزادے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا ،’’ مت رو بیٹا، میں تجھے ایک سفوف کی دو

 پڑیاں دیتا ہوں، یہ تیرے کام آئیں گی، ان پڑیوں کو اپنے پاس رکھ لے۔جب دیو یہاں آئے

 تو تم سرخ پڑیا والا سفوف اس کی آنکھوں میں ڈال دینا۔ اس طرح دیو اندھا ہو جائے گا ۔

 جب دیو اندھا ہو جائے تو تم اس سے وعدہ لینا کہ بینائی واپس آنے پر وہ سبز پری کو رہا کر

 دے۔ گا یہ جنات اپنے وعدہ کا پاس رکھتے ہیں۔ جب وہ وعدہ کر لے تو پھر پیلی پڑیا والا

 سفوف اس کی آنکھوں میں ڈال دینا۔ اس طرح تمہاراکام ہو جائے گا اور دیو بھی کہیں اور

 چلا جائے گا‘‘۔

بزرگ نے ابھی شہزادے کو پڑیاں پکڑائی ہی تھیں کہ ایک زبردست شور بلند ہوا اورکمرے میں

 دھواں ہی دھواں پھیل گیا۔

دیو آگیا ہے، آپ جلدی سے کہیں چھپ جائیں۔‘‘ سبز پری نے کہا۔ بزرگ اور شہزادہ فوراً

 ایک دروازے کے پیچھے چھپ گئے اور سبز پری دوسری طرف ہو کر کھڑی ہو گی۔ دیو کو محل

 میں داخل ہوتے ہی انسانوں کی بو آچکی تھی۔ وہ غصہ میں جو کمرے میں داخل ہوا تو اس

 کے سامنے سبز پری اکیلی ہی کھڑی تھی۔ ابھی وہ ادھر ادھر دیکھنے کے لیے مڑنے ہی لگا تھا کہ

 شہزادہ کی دروازے کی اوٹ سے نکل کر اس کے سامنے آگیا اور اچھل کر اس کی آنکھوں

 میں سر خ پڑیا والا سفوف ڈا ل دیا۔ جونہی سفوف دیو کی آنکھوں میں پڑا تو اس کی بینائی

 جاتی رہی اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ 


 شہزادے نے کہا

اے دیو میں تجھے مارنے نہیں آیا۔ تیری میری کوئی دشمنی بھی نہیں۔

تو نے ایک معصوم کو اپنی قید میں رکھا ہے ۔ اس لیے تجھے یہ سزا ملی ہے۔

دیو نے کہا

اگر مجھے میری بینائی واپس مل جائے تو میں اس معصوم کو چھوڑ دوں گا اور وعدہ  کرتاہوں کہ دوبارہ کسی کو زبردستی قید نہیں کروں گا۔

شہزادے نے دیو سے وعدہ لیا اور پھر پیلی پڑیا سے سفوف نکال کر دیو کی آنکھوں میں ڈال دیا۔

اب جو دیو نے آنکھیں ملیں تو اسے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ اس نے شہزادے اور بزرگ کا شکریہ ادا

 کیا اور اپنا جادو ختم کرنے کے لیے منتر پڑھنے لگا۔ یکدم آندھی آئی اورگھپ اندھیرا چھا گیا۔ جب

 ادھیرا چھٹ گیا تو سبز محل، سبز دریا، سبز شہر اور دیو سب غائب ہو چکے تھے جبکہ میدان میں

 شہزادہ اور بزرگ اور سبز پری کھڑے تھے۔



سبز پری اور شہزادہ خوشی سے جھومنے لگے۔ شہزادہ سبز پری اور بزرگ کے ہمراہ دوبارہ اس 

خانقاہ  پر پہنچ گیا۔

 وہاں پہنچ کر انہوں نے بزرگ کو الوداع کہا اور دونوں وطن کی طرف روانہ ہو گئے۔

راستے میں سبز پری نے شہزادے سے کہا کہ اب وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی اور اس کے

 خاندان کے افراد بھی جب چاہیں اسے دیکھ سکتے ہیں۔ 


?  کہانیکیسی لگی