وفاداری اور بے وفائی کا انجام



ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ اپنے نوکروں کے ہمراہ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک بچہ نظر آیا۔ بادشاہ کو بچہ بڑا پیارا

 لگا۔حکم دیا کہ اسے میرے گھر والوں کے سپرد کر دیا جائے، اس کی تربیت کی جائے، چنانچہ وہ بچہ شاہی نگرانی میں پلنے لگا۔

گھر والوں کو بھی یہ بچہ بڑا محبوب تھا۔ اس کا نام احمد یتیم رکھا گیا،بچہ بڑا ذہین نکلا ۔پڑھائی اور فرمانبرداری میں یکتا تھا۔
جب بادشاہ کی وفات کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلوایا اور کہا کہ میرے مرنے کے بعد اس بچے کی خوب دیکھ بھال کرنا
 اس کا خیال رکھنا اور اسےکسی بھی محرومی کا شکار نہ ہونے دینا۔
 
اپنے والد کی وفات کے بعد بیٹے نے والد کی وصیت پر پوری طرح عمل کیا۔احمد یتیم کو اور زیادہ اہمیت دی۔   اس کی پڑھائی
 لکھائی کے لیے بطور خاص استاد مقرر کیا جس سے احمد یتیم کی صلاحیتوں میں اور اضافہ ہوا۔

احمد خداداد صلاحیتوں کا مالک تھا۔ وہ بتدریج ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ نئے بادشاہ کو اس پر بہت زیادہ اعتماد تھا۔اس نے
 اسے اپنے خاص خادموں میں شامل کر لیا اور تمام شخصی اور ذاتی معاملات میں اس سے مشورہ کرنے لگا۔

کچھ عرصہ گزرا،  احمد یتیم کی کارکردگی اور بہتر نظر آئی تو اسے محل کے تمام نوکروں کا نگران مقرر کر دیا۔اب احمد یتیم تمام محل
 کے نوکروں کا ذمہ دار تھا اور آزادی سے محل کے کسی بھی حصے میں جا سکتا تھا۔

ایک دن بادشاہ نے احمد سے کہا میرے خاص کمرے سے فلاں چیز لے کر آؤ۔احمد جب اس کے کمرے میں گیا تو وہاں بادشاہ
 کی خاص لونڈی کو ایک نوکر کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا۔فسق و فجور میں مبتلا اس لونڈی نے احمد کی منت
 سماجت کی کہ اس پر رحم کرے اور اس کی پردہ پوشی کرے۔

 لونڈی خوبصورت تھی، وہ اسے ورغلانے لگی کہ میں تمہاری ہر قسم کی خدمت سرانجام دینے کو تیار ہوں۔

 احمد نے کہا: معاذ اللہ! تم کس قسم کی حرکتیں کر رہی ہو۔ میں اپنے امیر کی خیانت کس طرح کر سکتا ہوں؟

اس نے میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا ہے۔ مجھے فرش سے عرش تک لے گیا ہے۔یہ کام ذلیل اور گندے لوگوں کا ہوتا ہے۔
 
احمد نے لونڈی کو نصیحتیں کیں اور توبہ و استغفار کی تلقین کر کے وہاں سے رخصت ہوا اور اسے یقین دلایا کہ فکر نہ کرو، میں
 تمہاری پردہ پوشی کروں گا۔ 

ادھر اس لونڈی کو مسلسل فکر کھائے جا رہی تھی کہ کہیں احمد میرا پردہ چاک نہ کر دے۔ شام کے وقت حسب دستور جب
 بادشاہ  اندر آیا تو اس نے روتے ہوئے اپنے کپڑوں کو چاک کر لیا اور چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے بادشاہ  کے پاس پہنچ گئی۔

بادشاہ اس وقت اکیلا تھا۔ اپنی خاص لونڈی کو روتے دیکھا تو کہنے لگا: تمہیں کس نے مارا ہے اور کیوں رو رہی ہو؟

لونڈی نے مکر و فریب کے ساتھ اداکاری کرتے ہوئے کہا  احمد یتیم نے میرے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ہے میں بمشکل
 اپنی جان بچا کر بھاگی ہوں، ورنہ وہ تو زبردستی منہ کالا کرنا چاہتا تھا۔ 

: بادشاہ  نے سنا تو غصے سے بے قابو ہو گیا اور بولا
ایسے شخص کی سزا موت ہے، اسے فوراً قتل کر دینا چاہیے۔

رات ہو چکی تھی، لہٰذا اس نے اپنے ارادے کو صبح تک ملتوی کرنا مناسب سمجھا۔ ادھر احمد محل میں بے حد مقبول تھا سب
 لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ اسے سرعام قتل کروایا جاتاکیونکہ اس سے محل میں خواہ مخواہ
 چہ میگوئیاں ہوتیں۔

بادشاہ نے سوچا کہ اسے خفیہ طور پر قتل کروا دیا جائے تاکہ لوگوں کو اس کے جرم کا پتا چلے نہ قتل کا۔خیر امیر نے خود ہی
 منصوبہ بندی کی، اس نے اپنے خاص آدمی کو بلوایا اور اس سے کہا" میں جس شخص کے ہاتھ ایک تھال بھجواؤں، اس کو قتل
 کر کے اسی تھال میں اس کا سر رکھ کر اسے کپڑے میں لپیٹ دینا اور پھر میرے پاس لے آنا"۔ خادم خاص نے حکم کی
 تعمیل میں سر ہلا دیا۔

چند دن گزرے، بادشاہ  نے احمد یتیم کو بلایا اور کہا: اسٹور میں جاؤ، وہاں سے تھال لے کر فلاں شخص کے پاس جاؤ اور اس
 سے کہو کہ مجھے بادشاہ نے بھیجا ہے اور جو وہ دے اسے لے کر آؤ۔

احمد یتیم بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں تھال لے کر جلاد کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں اسے بعض نوکر ملے، ان کا آپس میں
 جھگڑا ہوا تھا۔انہوں نے اس سے فیصلہ کرنے کی درخواست کی ۔

 احمدنے کہا کہ میں بادشاہ کے کام جا رہا ہوں واپسی پر فیصلہ کر دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا ابھی فیصلہ کرنا نہایت ضروری
 ہے،اس کام کے لیے ہم کسی اور نوکر کو بھجوا دیتے ہیں۔ جب وہ تھال لے کر آئے تو آپ اسے امیر کے پاس لے جائیں۔

 بات معقول تھی،انہوں نے ایک نوکر کو اشارہ کیا کہ وہ تھال لے کر فلاں شخص کے پاس جائے اور وہ جو چیز دے وہ واپس
 یہاں لے آئے۔ اتفاق دیکھیے کہ یہ وہی شخص تھا جو لونڈی کے ساتھ بدکاری کا مرتکب ہوا تھا۔ چنانچہ وہ تھال لے کر اس
 خادم خاص کے پاس چلا گیا۔ 

اس خادم خاص نے قتل کرنے کے لیے خاص جگہ کا انتخاب کیا ہوا تھا تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو،اس نے اس نوکر کو
 ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گیا۔ اس نے نوکر کو قتل کرکے سر تھال میں رکھ کر خوب ڈھانپا اور بادشاہ  کے پاس لے آیا۔
خادم خاص اس تھال کو لے کر حاضر ہوا۔

 بادشاہ نے  جب تھال سے کپڑا ہٹایا تو وہاں احمد یتیم کے سر کے بجائے کسی اور نوکر کا سر تھا۔ وہ بڑا حیران ہوا،بادشاہ نے پوچھا: احمد یتیم کہاں ہے؟ بتایا گیا کہ وہ فلاں جگہ ہے۔ بادشاہ نے احمد یتیم کو بلانے کا حکم دیا۔

 جب احمد یتیم حاضر ہوا تو پوچھا: میں نے تمہیں ایک کام دے کر بھیجا تھا اور کہا تھا کہ تھال خود لے کر جاؤ، تم خود کیوں نہیں گئے؟
احمد یتیم جو تمام حالات سے بے خبر تھا،اس نے نوکروں کے درمیان جھگڑے اور پھر ان کے درمیان صلح کا ذکر کیا کہ میں
 وہاں مشغول تھا۔
 
اچانک بادشاہ  کو ایک خیال آیا اور اس نے اس خادم کے بارے میں پوچھا کہ کیا تم اسے اور اس کے گناہ کو جانتے ہو؟ احمد
 کہنے لگا: ہاں، اس کے فلاں لونڈی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور اس نے مجھے اللہ کا واسطہ دے کر چپ کرا دیا تھا کہ میں اس کی پردہ داری کروں۔ 

بادشاہ  کو جب سارے واقعے کا علم ہوا تو اس نے لونڈی کو قتل کرنے کا حکم دیا اور احمد کو مزید اختیارات عطا کیے اور اس کے لیے اس کے دل میں محبت اور عزت و احترام مزید بڑھ گیا۔ 

تو یہ تھا انجام ایک وفادار کی وفا کا اور ایک خائن کی خیانت کا۔ بلاشبہ اللہ رب العزت کا فرمان حق اور سچ ہے
  ’’اور بری تدبیر کا وبال اس تدبیر والے ہی پر پڑتا ہے۔‘‘  (سورہ فاطر)



:یہ بھی پڑھیں