یہ دنیا تو آگ کا انگارہ ہے



عبداللہ بن مرزوق خلیفہ مہدی کے ساتھ دنیا میں مشغول تھے۔ایک دن انہوں نے شراب پی اور لہو اور سماع (موسیقی اور رقص) میں مشغول رہے تو ظہر، عصر اور مغرب کی نماز نہ پڑھ سکے اور ہر نماز کیلئے ان کی باندی انہیں متنبہ (ہوشیار) کرنے آئی۔


پھر جب عشاء کا وقت نکلنے لگا، تو وہ ایک انگارہ لائی اور اس کے پاؤں پر رکھ دیا۔


وہ چیخ مار کر اٹھا اور کہا یہ کیا ہے؟


باندی نے کہا یہ تو دنیا کی آگ کا انگارہ ہے، تو آخرت کی آگ کیسے برداشت کرے گا؟


عبداللہ بہت روئے، پھر نماز کیلئے کھڑے ہوگئے اور ان کے دل میں باندی کی بات بیٹھ گئی۔


انہوں نے نجات کیلئے یہی جانا کہ ہر قسم کے مال و دولت سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔


تو انہوں نے اپنی باندیاں آزاد کر دیں اور معاملات نمٹائے اور بقیہ مال صدقہ کر دیا اور خود سبزی بیچنے لگے اور باندی نے بھی ان کی پیروی کی۔


ایک مرتبہ ان کے پاس (اس زمانے کے مانے ہوئے د و  ولی اللہ) سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ اور فُضَیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ آئے۔


یہ اپنے سر کے نیچے اینٹ لگائے لیٹے تھے۔


سفیان نے کہا کہ جو کوئی اللہ تعالی کیلئے کوئی چیز چھوڑتا ہے، اللہ تعالی اس کا بدل اسے عطا فرماتے ہیں، عبداللہ! بتاؤ تمہیں عوض میں کیا ملا۔


عبد اللہ نے جواب دیا کہ میری اس حالت پر مجھ کو اللہ کی رضامندی ملی ہے۔