حضرت عیسی علیہ السلام کا قصہ


HAZRAT ISA IBNE MARYAM URDU


حضرت عیسی علیہ السلام کا قصہ

حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے اور  آسمان پر اٹھایا جانا


  حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش  کیسے ہوئی  ، اس بارے میں تفصیل حضرت مریم  بارے  پوسٹ میں بیان کی گئی  ہے۔

 اس پوسٹ کو پڑھنے کے لیے لنک نیچے دیا گیا ہے۔


حضرت بی بی مریم علیہا السلام کا قصہ


حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش اللہ کے حکم سے ہوئی اور اللہ تعالی نے آپ کو بچپن میں بولنا سکھا دیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے بچپن میں  لوگوں سے باتیں کیں، یہ آپ کا معجزہ تھا۔



 اللہ پاک نے آپ کو نبی بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا، جن میں توریت کی تعلیم کے متعلق بہت اختلاف ہو چکا تھا اور 

  بنی اسرائیل توریت کی تعلیم کے خلاف عمل کرتے تھے۔

اللہ پاک نے آپ کو انجیل مقدس دی، آپ اسکی تعلیم لوگوں کو سکھاتے رہے۔




حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش کا مقام


جودیہ کے پہاڑوں میں واقع بیت اللحم فلسطین کا ایک بہت بڑا گاؤں ہے، جو سطح سمندر سے 800 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔

بیت اللحم کے جنوب میں چند میل کی مسافت پر کوہ سراۃ (کوہ ساعیر ) کے دامن میں وہ تاریخی مقام ہے، جہاں حضرت عیسی

 علیہ السلام پیدا ہوئے۔

اس غار سے متصل کونے میں ایک پتھر نصب ہے، جس میں ایک گول سوراخ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ کھجور کا وہ درخت

 تھا، جس کے متعلق قرآن مجید میں ذکر ہے کہ اے مریم ! اسے ہلاؤ ، تو کھجوریں گریں گی ۔


حواری کون تھے؟


حضرت عیسی علیہ السلام کا کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی بچے ۔ آپ شہر شہر ، قریہ قریہ دین حق کی تبلیغ فرماتے اور لوگوں تک

 اللہ کا پیغام پہنچاتے ۔ حسب ضرورت اپنے معجزات سے اُن کی مدد بھی فرماتے لیکن ان سب کے باوجود یہودیوں کی اکثریت

 آپ کو اذیت دینے اور تکذیب کرنے سے باز نہ آتی۔


 دراصل بنی اسرائیل آپ کی نبوت کے منکر رہے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جو آپ کے پیروکار اور ہم درد و

 غم خوار تھے۔ وہ آپ کے ساتھ دین کے کام میں مشغول رہتے ۔ قرآن کریم نے انہیں حواری کے نام سے یاد کیا ہے۔


ارشاد باری تعالی ہے جب حضرت عیسی علیہ السّلام نے اُن کا کفر محسوس کر لیا، تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد

 کرنے والا کون کون ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ( آپ کے ) مددگار ہیں ۔ہم اللہ تعالی پر ایمان

 لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابع دار ہیں (سوہ آل عمران ) ۔ 


لفظ حواری حور سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی سفیدی کے ہیں۔ اصطلاح میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص

 ساتھیوں کو یہ لقب دیا گیا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو صحابی کے لقب سے نوازا گیا۔ مفسرین نے

 بہت ہی قریبی حوار متین کی تعداد بارہ بتلائی ہے۔


معجزات ، انعامات اور فضیلتیں


اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تا کہ ان کی صداقت 

 فضلیت اور برتری نمایاں رہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السّلام کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں۔


 سب سے پہلا معجزہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا تھا۔ آغوش مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور

 صداقت کی گواہی دی۔ مٹی کا پرندہ بناتے ، اُس پر پھونک مارتے ، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ۔ پیدائشی نابینا کی

 آنکھوں پر ہاتھ رکھتے  تو اُس کی بینائی ایسے آجاتی جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے

 حکم سے صحت یاب کرتے ، مردوں کو زندہ کر دیتے ۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھا کر آتے اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے

 اُس کی تفصیل بتا دیتے ۔


مصر کی جانب ہجرت


حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے مکتب میں بنی اسرائیل کے بچوں کو ان کے ماں باپ جو کچھ کھاتے اور

 جو کچھ گھروں میں چھپا کر رکھتے وہ سب بتا دیا کرتے تھے۔ جب والدین نے بچوں سے دریافت کیا کہ تمہیں ان باتوں کی کیسے

 خبر ہوتی ہے؟ تو بچوں نے بتا دیا کہ ہم کو حضرت عیسی علیہ السلام مکتب میں بتا دیتے ہیں۔ یہ سن کر ماں باپ نے بچوں کو

 مکتب جانے سے روک دیا اور کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام جادوگر ہیں۔

جب حضرت عیسی علیہ السلام بچوں کی تلاش میں بستی کے اندر داخل ہوئے تو بنی اسرائیل نے اپنے بچوں کو ایک مکان کے

 اندر چھپا دیا کہ بچے یہاں نہیں ہیں آپ نے پوچھا کہ گھر میں کون ہیں؟

تو شریروں نے کہہ دیا کہ گھر میں سور  ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اچھا سور ہی ہوں گے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کے بعد مکان

 کا دروازہ کھولا تو مکان میں سے سور ہی نکلے۔


اس بات کا بنی اسرائیل میں چرچا ہو گیا اور بنی اسرائیل نے غیض و غضب میں آ   کر آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ یہ دیکھ

 کر حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت بی بی مریم رضی اللہ عنہا آپ کو ساتھ لے کر مصر کو ہجرت کر گئیں ۔ اس طرح

 آپ شریروں کے شر سے محفوظ رہے۔


یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہود اپنی سابقہ روایات اور عادات خبیثہ کے

 باعث حضرت زکریا علیہ السلام کی نافرمانی اور اُن کی تکذیب کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر مشرکانہ

 طور طریقے اختیار کر لیے تھے، یہاں تک کہ اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی بہت زیادہ رد و بدل کر لیا تھا۔


 حضرت عیسی علیہ السلام  کا آسمان پر اٹھایا جانا


حضرت عیسی علیہ السلام حیات ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں یہودیوں سے محفوظ کر کے یقینی طور پر اپنے پاس اٹھا لیا

 اور آخر زمانے میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے۔

 حضرت عیسی علیہ السلام کا بحفاظت آسمانوں پر اٹھایا جانا اور ان کی حیات اور دوبارہ دنیا میں آنا قرآن مجید اور صحیح

احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔


 امام تفسیر حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ  حضرت عیسی علیہ السلام  کا آسمان پر اٹھایا جانے کا قصہ یوں پیش آیا کہ

 جب یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام  کے قتل کا ارادہ کیا تو آپ کے حواری ایک جگہ جمع ہو گئے ۔حضرت عیسی علیہ السلام

 بھی ان کے پاس تشریف لے آئے۔ ابلیس نے یہود کے اس دستہ کو جو حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے لیے تیار کھڑا

 تھا حضرت عیسی علیہ السلام کا پتا دیا اور چار ہزار آدمیوں نے مکان کا محاصرہ کر لیا۔


 حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حوار بین سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس کے لیے آمادہ ہے کہ باہر نکلے اور اس کو

 قتل کر دیا جائے اور پھر جنت میں میرے ساتھ ہو؟ ان میں سے ایک آدمی نے اس غرض کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا

 آپ نے اس کو اپنا کرتہ اور  عمامہ عطا کیا ، پھر اس پر آپ کی مشابہت ڈال دی گئی اور جب وہ باہر نکل آیا تو یہود اسے پکڑ

 کر لے گئے اور سولی پر چڑھا دیا  اورحضرت عیسی علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا۔


بعض روایات میں ہے کہ یہودیوں نے ایک شخص طبطلانوس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے واسطے بھیجا تھا ، حضرت

 عیسی تو مکان میں نہ ملے ، اس لیے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اٹھا لیا تھا اور  یہ شخص جب گھر سے نکلا تو حضرت عیسی علیہ

 السلام کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہود ی  سمجھے کہ یہی عیسی ہے اور انہوں نے اپنے ہی آدمی کو لے جا کر کر قتل کر دیا۔ 


ان میں سے جو بھی صورت حال پیش آئی ہو سب کی گنجائش ہے، قرآن کریم نے کسی خاص صورت کو متعین نہیں فرمایا 

 اس لیے حقیقت حال کا صحیح علم تو اللہ ہی کو ہے۔البتہ قرآن کریم اور دوسری تفسیری روایات سے یہ قدر مشترک ضرور نکلتی

 ہے کہ یہود و نصاری کو زبر دست مغالطہ ہو گیا تھا۔حقیقی واقعہ ان سے پوشیدہ رہا اور اپنے اپنے گمان و قیاس کے مطابق انہوں

 نے طرح طرح کے دعوے کیے اور ان کے آپس ہی میں اختلافات پیدا ہوگئے ۔


 یہود تو حضرت عیسی علیہ السلام  کو  نبی ہی تسلیم نہیں کرتے  بلکہ انہیں العیاذ باللہ  کاذب قرار دیتے ہیں اور نصاری اگرچہ

 ان پر ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں، مگر بعض تو ان میں اپنی جہالت میں یہاں تک پہنچ گئے کہ یہود ہی کی طرح حضرت

 عیسی  علیہ السلام کے مقتول اور مصلوب ہونے کے قائل ہو گئے اور بعض  غلط  عقیدے   میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ

 انہیں خدا اور خدا کا بیٹا سجھ لیا۔


 قرآن کریم میں بتلایا گیا ہے کہ یہ لوگ اگر چہ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت پر  صحیح ایمان نہیں رکھتے، لیکن جب

 وہ قیامت کے قریب اس زمین پر پھر نازل ہوں گے تو یہ سب اہل کتاب ان پر صحیح ایمان لے آئیں گے، نصاری تو سب

 کے سب صحیح اعتقاد کے ساتھ مسلمان ہو جائیں گے، یہود میں جو مخالفت کریں گے قتل کر دیے جائیں گے، باقی مسلمان ہو

 جائیں گے، اس قت کفر اپنی تمام قسموں کے ساتھ دنیا سے فنا کر دیا جائے گا اور اس زمین پر صرف اسلام ہی کی حکمرانی  ہوگی۔

 انشا ء اللہ


یہ بھی پڑھیں: قصہ حضرت زکریا علیہ السلام کا