جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی


Muhammad's first revelation



حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی


عرب کی حالت اس وقت بہت خراب تھی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لوگوں کے درمیان رہ کر پرورش پائی اور آپ

 کا اٹھنا , بیٹھنا ملنا جلنا  بھی لوگوں سے تھا  مگر آپ نے کسی کی خراب عادت نہیں لی۔ آپ کے ہر کام میں صفائی ستھرائی پائی

 جاتی تھی۔ آپ کی دیانت سچائی اور پاکیزگی کی شہرت ہوتی چلی گئی اور لوگ آپ کو صادق اور امین  لیکر پکارنے لگے۔


 جب آپ پچیس سال کے ہوئے تو آپ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی جو بیوہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کا مال

 لیکر عرب کے مختلف ملکوں میں جاتے ، وہاں بھی آپ کو امین اور صادق کہہ کر پکارا جاتا ۔مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلے

 پر پہاڑ میں ایک غار تھا ، جس کو غار حرا کہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز کا کھانا لے کر اس غار میں چلے جاتے 

 اور وہاں اکثر خدا کی عبادت اور سوچ بچار میں وقت گزارتے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور آپ کی عمر چالیس برس کی ہو

 چکی تھی ۔ آپ معمول کے مطابق غار حرا میں عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور قرآن پاک کی یہ  آیتیں پڑھ کر سنا ئیں۔


 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ ۔

(سورۃ العلق پ: ۳۰ آیت ۱)

ترجمہ : پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے

 جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔


غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی گئی اور حکم دیا گیا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا سیدھا راستہ بتائیں، یہ کام

 آسان نہیں تھا، اپنی ذمہ داری کا خیال کر کے آپ کا نپ گئے اور گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے ، حضرت خدیجہ نے آپ کو

 تسلی دی اور کہا :  آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہیں وہ آپ کو کبھی خوف و رنج میں نہیں ڈالے

 گا۔


قوم کو دین وایمان کی دعوت


 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں اور گہرے دوستوں کو اللہ کی طرف بلایا

 اور فرمایا " قُولُوا لَا إِلَهَ إِلا الله کہو 

" کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں"

  

  رشتہ داروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور اس بات پر آپ سے لڑنے کو تیار ہو گیے۔ سب سے پہلے  حضرت خدیجہ  رضی

 اللہ عنہا،   چچا زاد بھائی حضرت علی  رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن حارث جو  آپ کے آزاد کئے ہوئے غلام تھے اور حضرت ابو

 بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے دوست تھے، ایمان لائے اور اللہ کے دین کو پھیلانے لگے۔


 اس زمانہ میں عرب میں بت پرستی کا زور تھا۔ خانہ کعبہ جو اللہ کا گھر ہے اس میں بے شمار بہت رکھے تھے۔ہمارے پیارے

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کا دین پھیلانے میں بڑی بڑی مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لئے اور قوم کی عبرت کیلئے پہلے نبیوں کے قصے بتائے گئے کہ جن قوموں نے اپنے نبی کا کہنا مانا وہ دین و دنیا میں کامیاب رہیں اور جنھوں نے اپنے نبی کا انکار کیا اور اس کا کہنا نہیں مانا وہ قوم اس دنیا سے بھی نیست و نابود کر دی گئی اور آخرت میں بھی اس کو بڑی سزا ملے گی۔


 حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ایمان کی دعوت دیتے تو مکے کے کافر کہتے کہ کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں؟ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب   یوں بیان فرمایا ہے۔


 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ، جس طرح سب لوگ ایمان لائے تو وہ کہتے ہیں کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف ایمان لائے ،سنو لیکن وہی ہیں بے وقوف مگر جانتےنہیں (سورہ بقرہ، آیت ۱۳)


اور کافر کہتے ہیں کہ ( قرآن ) من گھڑت باتیں ہیں جو اس نے بنالی ہیں اور لوگوں نے ان کی مدد کی ہے (سورة 

الفرقان پ ۱۸ آیت ( ۴ ) 


اللہ پاک اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

ترجمہ:   یہ لوگ ایسا کہنے میں ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جن کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح و شام اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں (سورۃ الفرقان: پاره ۱۸، آیت ۴، ۵)۔


پھر اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں

 ترجمہ: کہہ دو کہ اس نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے (سورة الفرقان ب ١٨ آیت ٦ ) 



ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا کہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا(سورة الفرقان ب ۱۸ آیت۷)۔


ترجمہ: یا اس کی طرف (آسمان) سے خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں سے کھایا کرتا اور ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک جادو وہ شخص کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کیا ہوا ہے (سورة الفرقان، پ ۱۸ آیت ۸)


اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں

ترجمہ: (اے پیغمبر) دیکھو یہ تمہارے بارے میں کس کس طرح کی باتیں کرتے ہیں سو گمراہ ہو گئے اور راستہ نہیں پاسکتے وہ خدا با برکت ہے، جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر بنادے باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں

نیز تمہارے لئے محل بنادے(سورة الفرقان پ ۱۸ آیت۹)


ترجمہ: اور جولوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ فرشتے کیوں نازل نہیں کئے گئے یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں(سورة الفرقان ب ۱۸ آیت۲۱)


 ہمارے پیارے نبی نے اس دین کو پھیلانے کی خاطر کیسی کیسی تکلیفیں اٹھا ئیں ، آپ نے صبر سے کام لیا اور ہمت نہیں ہاری۔


یہ بھی پڑھیں

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن