حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ

life bio of hazrat adam


حضرت  آدم  علیہ  السلام  کا قصہ


آج سے ہم  انبیاء کرام  کی سیرت کا احوال شروع کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ   انبیاء کرام سے ہوتا ہوا ہمارے پیارے نبی حضرت

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے جانثار صحابہ  کی زندگیوں کا احاطہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے  اس

 دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ  چو بیس ہزار  پیغمبر مبوث فرمائے۔ ان تمام پاک ہستیوں کا تذکرہ تو ممکن نہیں لیکن کوشش ہے

 کہ جن انبیاء  کا  ذکر قرآن پاک میں آیا ہے، اُن کی زندگیوں کا مختصر احوال بیان  ہو جائے  تاکہ ہمارے ایمان کی تجدید

 ہوجائے۔ 


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں   انبیاء کرام  کی سیرت  کا مطالعہ کرنے اور ان کے روشن زندگیوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے

 کی     توفیق عطا فرمائے۔آمین


حضرت آدم علیہ السلام


سب سے پہلے انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا، اور سب سے پہلے نبی آپ ہیں، آپ ہی کی اولاد ساری دنیا میں

 پھیلی، آپ کا ذکر قرآن پاک میں انیس بار آیا ہے جب اللہ تعالی نے دنیا کو آبادکرنے کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں سے کہا  میں  دنیامیں اپنا ایک نائب ، خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، فرشتوں نے کہا اے اللہ تو دنیامیں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے 

جو خرابیاں کرے اور خون کرتا پھرے، ہم تیری تعریف کرنے کے ساتھ تیری تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا   میں وہ باتیں جانتا ہوں  جو  تم نہیں جانتے۔


 اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سب چیزوں کے نام  سکھا دیئے، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا، اور فرمایا

اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔ انھوں نے کہا کہ تو پاک ہے جتنا علم تو نے ہم کو بخشا ہے اس کے سوا ہم کو کچھ نہیں

 معلوم، پھر اللہ  تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے، مگر شیطان نے سجدہ نہیں

 کیا اس کا ذکر پہلے بھی آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور جہاں

 سے چاہو کھاؤ پیو، مگر ایک خاص درخت کے متعلق حضرت آدم علیہ السلام کو منع کر دیا کہ اس کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم

 بھی ظالموں میں سے ہو جاؤ گے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا متحان لیا کہ دیکھیں یہ ہمارا کہنا مانتے ہیں

 یا بھول جاتے ہیں، اور شیطان کے بہکائے میں آجاتے ہیں۔


شیطان جو پہلے ہی حضرت آدم سے ناراض تھا کہ ان کی وجہ سے وہ خدا تعالی کے دربار سے نکلا اور خدا تعالی کی لعنت اس پر

 ہوئی اور اس نے قسم کھائی تھی کہ میں حضرت آدم اور اس کی اولاد کو قیامت تک بہکاتا رہوں گا، کہ اللہ تعالیٰ  کا کہنا نہ مانے

 اور خوب برائیاں پھیلائے ، وہ حضرت آدم اور ان کی بیوی حضرت حوا علیہا السلام کو برابر بہکا تا رہا کہ اس درخت کا پھل تم

 ضرور کھاؤ اس کے کھانے سے تم فرشتہ بن جاؤ گے، جنت میں سے کبھی نہ نکلو گے، آخر ایک دن حضرت آدم علیہ السلام اور

 انکی بیوی حضرت حوا بھول سے شیطان کے بہکائے میں آگئے، اوردرخت کا پھل کھا لیا ، پھل کھاتے ہی دونوں ننگے ہو گئے۔

 اور جنت کا لباس ان کے بدن سے غائب ہو گیا، اور وہ جنت کے پتوں سے اپنے بدن کو چھپانے لگے۔ اللہ تعالی نے حضرت

 آدم علیہ السلام سے کہا کہ ہم نے کہدیا تھا کہ اس درخت کے پاس بھی نہ جانا ، اور شیطان کے کہنے میں نہ آنا، وہ تمہارا دشمن

 ہے تم اس کے کہنے میں آگئے ، اب تم اور حوا جنت سے چلے جاؤ اور دنیا میں جا کر رہو۔


حضرت آدم کو جنت سے نکلنے اور شیطان کے بہکائے میں آنے کا بہت رنج ہوا اور بہت عرصہ تک اللہ تعالی سے معافی مانگتے

 رہے اور روتے رہے کہ اللہ تعالی مجھے معاف کر دے، آخر اللہ تعالیٰ  کو رحم آیا اور حضرت آدم کو یہ دعا سکھائی کہ اے

 ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ، اور تو ہم پر رحم نہیں کریگا تو ہم بڑا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ تو

 حضرت آدم نے یہ دعا بہت گڑ گڑا کر مانگی، اور اللہ تعالیٰ  تو بہت رحم کرنے والے ہیں، جب کوئی بندہ گناہ کر لیتا ہے اور سچے

 دل سے تو بہ کر لیتا ہے کہ اے اللہ یہ گناہ تو مجھ سے غلطی سے ہو گیا آئندہ ایسا نہ کروں گا ، تو وہ معاف کر دیتے ہیں چناں

 چہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ  نے معاف کر دیا۔ اور پھر کہا کہ تم اور تمہاری اولا د دنیا میں رہو اور یہ بات

 یا د رکھوں کہ جب میری طرف  سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری ہدایت لے کر تمہارے پاس آئے تو تم اس کا کہنا ماننا جو

 میرے بھیجے ہوئے نبیوں کا کہنا مانے گا اس کو پھر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غم ہو گا اور جو لوگ میرے نبیوں کی بات کو نہیں

  مانیں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔


 اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام دنیا میں رہنے سہنے لگے، خوب دل لگا کر اللہ کی عبادت کرتے

 ان کی بہت اولاد ہوئی اوردنیا میں سب جگہ آباد ہوتی رہی۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو یہی بات بتاتے رہے کہ تم

 کبھی شیطان کے بہکائے میں نہ آنا، وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم کو بری باتیں کرنے کے لئے بہکاتا رہتا ہے، ہمیشہ اللہ کی عبادت

 کرنا، سچ بولنا کسی پر ظلم نہ کرنا، ایک دوسرے کی نیک کاموں میں مدد کرتے رہنا۔

   حضرت آدم علیہ السلام نو سو سال زندہ رہ کر وفات پاگئے۔