حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ



Prophet Dawud (AS) Story


حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ


حضرت داؤد علیہ السلام بھی بنی اسرائیل کے بڑے نبی گزرے ہیں، آپ کا ذکر قرآن پاک میں کئی جگہ آیا ہے، سورہ ص میں

 خصوصیت سے نہایت تفصیل سے ملتا ہے یہ سورہ پارہ:۲۳ میں ہے آپ پر آسمانی کتاب زبور نازل ہوئی تھی۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتقال کے کافی عرصہ بعد بنی اسرائیل کے سرداروں نے اس وقت کے نبی سے کہا کہ ہم کو ایک

 بادشاہ کی ضرورت ہے، جس کی سرداری میں ہم اللہ کے دشمنوں سے جنگ کریں، اللہ کے نبی ان کی حالت کو خوب جانتے تھے،

 پہلے تو  انھوں نے انکار کر دیا کہ یہ لوگ بزدل ہیں جنگ نہیں کریں گے، مگر جب قوم اور سرداروں کا اصرار بڑھا  تو اللہ کے نبی

 نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔


طالوت ایک غریب آدمی تھے، سردار امیر لوگ طالوت کا نام سنتے ہی ناراض ہو گئے کہ سرداری اور بادشاہت تو ہمارا حق تھا، یہ

 غریب آدمی کو کیسے مل گیا ؟ حضرت طالوت بڑے عالم، عابد، جنگ کے ماہر اور بڑے بہادر طاقتور آدمی تھے، اس لئے اللہ نے

 ان کو بادشاہ مقرر کیا تھا۔ اللہ کے نزدیک تو امیر و غریب سب برابر ہیں اس کے نزدیک وہی اچھا ہے جو نیک ہو۔


 لوگوں کو تسلی کے لئے اس وقت کے نبی نے یہ فرمایا تھا کہ حضرت طالوت کو بادشاہ بتانے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ تین

 صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی یادگار ہے اسے فرشتے اٹھا کر تمہارے پاس لے آئیں

 گے، چنانچہ فرشتے وہ صندوق ان کی قوم کے پاس لے آئے، آخر انھوں نے حضرت طالوت کو اپنا بادشاہ بنالیا۔


 پھر جب طالوت اپنی فوج لے کر روانہ ہونے لگے تو انھوں نے اپنی قوم کی ایک آزمائش کی کہ اگر کوئی مصیبت آئی تو یہ لوگ

 اس کا مقابلہ کریں گے یا بھاگ جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ آگے چل کر پانی کی ایک نہر آئے گی جس نے اس کا پانی پی لیا

 اس کو مجھ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔میرا آدمی وہ ہے جو اس میں سے نہ پنے زیادہ سے زیادہ ایک چلو پینے کی اجازت ہے، مگر جب

 نہر پر پہنچے تو چند لوگوں کے سوا سب نے خوب پانی پی لیا۔


 جب نہر کے پار اتر گئے تو کہنے لگے ہم اپنے دشمن جالوت سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر ان میں وہ لوگ جو ایماندار تھے اور

 جنھوں نے صرف ایک گھونٹ پانی پیا تھا وہ پکار اٹھے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت بڑی جماعت

 پر غالت آجاتی ہے اللہ ہمیشہ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔جب یہ لوگ جالوت کے لشکر کے سامنے آئے تو دعا کی کہ

 اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے صبر عطا کر کہ مرمٹیں ، مگر دشمن سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹیں ، ہمارے پاؤں جمائے رکھ

 اور ہمیں فتح دے، پھر اللہ کے حکم سے انھوں نے دشمن کو شکست دی۔


حضرت طالوت علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ نے حکومت عطا کی اور حکومت بھی ایسی عطا کی کہ انسانوں

 کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو بھی ان کا فرمانبردار کر دیا ۔ان کو دانائی اور مقدموں کے فیصلے کرنے کی لیاقت بخشی ، پھر

 بھی وہ اللہ کی عبادت ہر وقت کرتے رہے۔ اللہ نے ان کو حکم دیا تھا کہ پوری پوری زر ہیں بنائیں، کڑیوں کے جوڑنے میں

 مناسب انداز کا خیال  رکھیں اور اپنی زندگی نیک کاموں پر خرچ کریں۔


ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا، اس طرح کہ دو آدمی دیوار پھلاند کر ان کے مکان میں گھس آئے ، جس میں وہ

 عبادت کرتے تھے۔ آپ نے انھیں دیکھا تو گھبرا گئے، انھوں نے کہا آپ گھبرائیں نہیں ، ہم اپنا جھگڑا لے کر آئے ہیں۔

 میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے، اب یہ ایک دنبی کو بھی لینا چاہتا ہے، آپ

 انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔


آپ نے فرمایا کہ جو تم سے دنبی مانگ رہا ہے اس میں یہ زیادتی پر  ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں، البتہ

 جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں وہ اس زیادتی سے بچ جاتے ہیں مگر ایسے شریک بہت کم ہوتے ہیں ۔ 

جب یہ لوگ چلے گئے تو آپ کو خیال گزرا کہ اللہ نے یہ میرا امتحان لیا ہے، انھوں نے تو بہ کی سجدے میں گر پڑے اور اللہ کی

 طرف توجہ کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے داؤد ہم نے تمھیں اس زمین کا خلیفہ بنایا ہے، لوگوں میں انصاف کرنا اور اپنی

 خواہش پر نہ چلنا ورنہ اللہ کی راہ سے بھٹک جاؤ گے۔


حضرت داؤد علیہ السلام کے قصے میں ہم کو یہ سبق ملتے ہیں۔ (1) مسلمانوں کے بادشاہ کے لئے امیر ہونا ضروری نہیں بلکہ اس

 کو عالم طاقتور و بہادر اور لڑائی کے طریقے معلوم ہونے چاہئیں، جیسے حضرت طالوت گو غریب آدمی تھے، مگر یہ سب خوبیاں ان

 میں موجود تھیں، اللہ تعالی نے ان کو بادشاہ بنایا۔


(۲) دشمن سے لڑائی جیتنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ تعداد زیادہ ہو، مگر ضروری یہ ہے کہ ہمارا اللہ پر کامل یقین ہو کہ وہ ہماری

 مدد کرے گا ہم موت سے نہ ڈریں اور اپنے امیر کی اطاعت کریں۔


ہمارے پاس کتنی ہی دولت آجائے یہاں تک کہ چرند پرند ، پہاڑ لوہا سب ہمارے تابع ہو جائے مگر ہمیں اللہ کو نہیں بھولنا

 چائے دل کی خواہش پر نہ چلنا چاہئے سب کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے۔ 


مزید پڑھیں

حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ


حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ