حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بچپن، نکاح اور پیغمبری

prophet-musa-story


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بچپن، نکاح اور پیغمبری


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے بہت بڑے رسول گزرے ہیں۔قرآن پاک میں آپ کا بار بار ذکر آتا ہے

آپ پر توریت شریف نازل ہوئی ان کی قوم  بنی اسرائیل کی ہدایت اور نجات کا کام  آپ کے سپر د ہوا۔



 حضرت ابراہیم کے دو بیٹے بہت مشہور ہوئے ہیں، حضرت اسماعیل علیہ السلام، اور حضرت اسحاق علیہ السلام۔ حضرت

 اسمعیل مکہ مکرمہ میں ٹھرے جہاں حضرت ابراہیم ان کی والدہ کے ساتھ چھوڑ آئے تھے جہاں ان کی اولاد خوب پھولی پھلی

 انہی میں ہمارے رسول پاک جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔


 حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی اولاد میں سے   حضرت یعقوب تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ تھا، ان کی اولاد

 بنواسرائیل کہلائی یہ لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کی وجہ سے مصر میں آباد ہو گئے تھے ، جہاں وہ مصر یوں کے چار سو سال

 تک غلام بنے رہے مصر پر اس زمانے میں قبطیوں کی حکومت تھی، ان کا بادشاہ فرعون کہلاتا تھا، یہ بنواسرائیل پر طرح طرح

 سے ظلم کرتا تھا۔  آخر کار  اللہ تعالی نے رحم فرمایا اور بنواسرئیل کی ہدایت اور آزادی کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا۔

 


مصر کے بادشاہ فرعون کو نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں بہت جلد ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو تیری حکومت کو تباہ کر

 کے اپنی قوم کو آزاد کرالے گا۔اس خبر سے وہ پریشان ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ اس قوم میں جو بھی لڑکا پیدا ہو،اسے ذبح

 کر دیا جائے مگر لڑکیاں زندہ رہنے دی جائیں۔

 


جس سال حضرت موسی پیدا ہوئے ان کی والدہ کو اس بات کا ہر وقت  کھٹکا   لگا رہتا تھا کہ کوئی دایہ بادشاہ کو اس بات کی خبر

 نہ کر دے مگر اللہ نے ان کو تسلی دلی  کہ تم فکر نہ کرو۔جب بھید کھل جانے کا خطرہ زیادہ ہو گیا تو انھوں نے اللہ کے حکم

 سے انھیں ایک صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا ۔ دریا کے دوسری طرف فرعون کے گھر والے تھے، انھوں نے صندوق

 کو جو بہتے دیکھا تو اٹھا کر گھر لے گئے، انھیں خبر نہ تھی کہ آگے چل کر یہی لڑکا ان کے رنج کا سبب ہو گا۔ فرعون کی بیوی نے

 کہا، اسے قتل نہ کرو، یہ ہم سب کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، ہمارے کام آئے گا اور اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے۔


 اب اس کے دودھ پلانے کی فکر ہوئی تو وہ کسی عورت کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ ان کی بہن جو اس صندوق کے پیچھے گئی ہوئی

 تھیں، یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں، انھوں نے کہا کہ میں ایک انا کا پتہ دیتی ہوں جو اس کو پال لے گی اور اچھی 

طرح دیکھ بھال کرلے گی اور انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا پتہ بتایا۔


 اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم کے دشمن فرعون کے گھر میں پرورش کرتے رہے، یہاں تک کہ جوان ہو گئے ۔ایک روز

 کا قصہ ہے کہ وہ صبح سویرے شہر آئے اس وقت سب کے سب آرام سے سورہے تھے، انھوں نے اپنی قوم کے ایک آدمی کو

 دیکھا جسے قبطی مارہا تھا، کیونکہ وہ اس سے بیگار میں کام لینا چاہتا تھا اور وہ انکار کر رہا تھا ۔ حضرت موسی سے اپنی قوم کی

 ذلت برداشت نہ ہو سکی اور اس کی مدد  کے لئے مجبور ہو گئے ۔ انھوں نے اس کے گھونسہ مارا اور  اس کی جان نکل گئی۔

 اس کا مرنا تھا کہ حکومت میں کھلبلی مچ گئی ۔بنی اسرائیل کے ایک شخص نے ہماری قوم کےآدمی کو مار ڈالا ، چناں چہ حکم دیا

 گیا کہ قتل کرنے والے کو مار دیا جائے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وقت پر خبر مل گئی اور وہ مدین کی طرف چلے گئے جو

 حضرت شعیب علیہ السلام کا شہر تھا۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نکاح اور پیغمبری

مدین کے قریب پہنچے تو دیکھا کنویں کے پاس بہت سے لوگ جمع ہیں جو اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں، مگر دولڑکیاں

 اپنے جانوروں کو لئے ایک طرف کھڑی ہیں۔ حضرت موسی نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں کھڑی ہو،  انہوں نے  کہا ہمارا باپ

 بوڑھا ہے ہم اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ یہ لوگ اپنے جانوروں کو پلائیں تو بچا ہوا پانی اپنے جانوروں کو دیں۔یہ سنا تو انھوں

 نے پانی کھینچا اور ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، اور ایک درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئے کیونکہ شہر میں کسی سے جان پہچان نہ

 تھی۔

 وہ دونوں لڑکیاں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادیاں تھیں جن کا قصہ آپ پہلے سن چکے ہیں، انھوں نے گھر جا کر اپنے

 والد سے تمام قصہ بیان کیا اور ان کے فرمانے پر اپنے گھر لے گئیں۔ جب انھوں نے اپنی مصیبت کا قصہ سنایا تو حضرت

 شعیب علیہ السلام نے فرمایا اب ڈرنے کی ضرورت نہیں اللہ نے آپ کو ظالم قوم سے بچالیا ہے۔


حضرت شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم آٹھ سال تک میرے پاس کام کرو اور دو سال اور ٹھہر جاؤ تو تمھیں اختیار

 ہے مگر میں اس کا حق نہیں رکھوں گا۔ آٹھ سال گزر جانے پر تمھیں اپنے پاس رہنے پر مجبور نہ کروں گا۔

میں اپنی طرف سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سے کردوں گا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ مجھے منظور ہے، آٹھ دس سال اس میں سے جو مدت چاہوں پورا کروں ، مجھ پر ز

 زیا  دتی  نہ ہونی چاہئے اور اللہ تعالی ان باتوں پر گواہ ہے۔چناں چہ وہ برابر کام کرتے رہے اور جب مدت پوری ہوگئی

 تو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی لڑکی کا نکاح ان سے کر دیا ۔ 


جب نکاح ہو گیا تو دونوں میاں بیوی وہاں سے روانہ ہوئے اور راستے میں ایک جگہ پہاڑی کی طرف انھوں نے آگ دیکھی۔

 موسی علیہ السلام نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں آگ لے کر ابھی آتا ہوں، اور اگر کوئی شخص وہاں مل گیا تو

 اس سے راستہ بھی معلوم کرلوں گا۔ وہاں گئے تو میدان کے کنارے پر درخت میں سے آواز آئی مبارک ہے وہ جو اس آگ

 میں ہے اور جو اس کے چاروں طرف ہے۔ تم طویٰ کے میدان میں ہو، اپنے جوتے اتاردو، میں بڑی دانائی والا اللہ ہوں

 تمام جہان کا اور تمہارا پالنے والا ء میں نے تمھیں پیغمبری کے لئے چن لیا ہے، جو کچھ کہتا ہوں اس کو سن ، میری عبادت

 کر، اور میری یاد کی خاطر نماز کی پابندی کر، بیشک قیامت آنے والی ہے۔


اے موسیٰ  تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ انھوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے، اس پر سہارا لیتا ہوں، اپنی بکریوں کیلئے اس سے

 پتے جھاڑتا ہوں اور اس کے سوا اس سے اور بھی کام لیتا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس لاٹھی کو زمین پر ڈال د و۔ لاٹھی

 جو ڈالی تو وہ سانپ کی طرح دوڑتی ہوئی دکھائی دی، اس پر وہ ڈر گئے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اس کو پکڑ لو اور ڈرو

 نہیں ہم ابھی اس کو پہلی حالت پر کر دیتے ہیں، اور اپنا داہنا ہاتھ اپنی بائیں بغل میں دے لو پھر نکالو ، بلا کسی عیب کے

 نہایت روشن ہو کر نکلے گا، یہ دوسری نشانی ہوگی تاکہ ہم تم کو اپنی قدرت کی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دکھا دیں۔


 ان دونوں نشانیوں کے ساتھ ساتھ اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا اور فرمایا اس ملک میں فرعون

 نے فساد پھیلا رکھا ہے اور سرکشی پر کمر باندھ رکھی ہے، آپ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلاءے گا ۔ 

اور میں نے اس کے ایک آدمی کو مار دیا تھا، اب وہ مجھے مارنے کی کوشش کریگا۔ اے میرے رب   میری زبان کھول دے 

 کہ لوگ میری زبان سمجھ لیں اور میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی میرے ساتھ کر دے کہ مجھے قوت ملے۔


حضرت موسی کی دعا قبول ہو گئی اور دونوں بھائیوں نے مصر میں جا کر فرعون سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تیرے پاس بھیجا

 ہے کہ تو بنی اسرائیل کو نہ ستا  اور انھیں ہمارے ساتھ روانہ کر دے ہمارے پاس تیرے رب کی نشانیاں ہیں، اور یہ بھی

 یقین کرلے کہ سلامتی اس شخص کے لئے ہے جو سیدھی راہ پر ہے اور جو شخص جھٹلائے گا اور سرکشی کرے گا اس پر اللہ کا

 عذاب آئیگا۔


فرعون کے پاس اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا  مگر اسے اپنی حکومت فوج اور خزانوں پر گھمنڈ تھا ، اس لئے وہ برابر ان سے

 بحث کرتا رہا، اور جب ہر بات کا اس کو ٹھیک ٹھیک جواب ملتا رہا تو اس نے موسیٰ سے کہا تم بچے تھے تم ہمارے گھر

میں آئے، ہم نے تمہیں سالہا سال تک اچھی طرح پالا ۔حضرت موسی علیہ السلام نے جواب دیا تو احسان جتلا رہا ہے پرورش

 کا وہ یہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت میں ڈال رکھا تھا، اور جب تم نے

 میرے قتل کا ارادہ کیا تو میں مدین چلا گیا پھر اللہ نے مجھے دانائی دی اور اب رسول بنا کر تیری طرف بھیجا۔ فرعون نے کہا اور

 تم نے وہ حرکت یعنی قبطی کو تل کیا تھا اور تم بڑے ناسپاس ہو۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ واقعی میں اس

 وقت حرکت کر بیٹھا تھا اور مجھ سے غلطی ہوگئی تھی۔

فرعون اس بات کو سن کر لا جواب ہو گیا اور بات بدل کر پوچھنے لگا تمہارا رب کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس نے آسمان اور

 زمین کو پیدا کیا جو نہ صرف تمہارا بلکہ تمہارے باپ دادا کا پالنے والا ہے، فرعون نے در بایوں سے کہا کہ یہ تو

کوئی دیوانہ ہے جو بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔


:مزید پڑھیں

پارٹ 2:حضرت موسی کی نبوت، فرعون سے مقابلہ اور بنی اسرئیل کی نافرمانی