حضرت موسی کی نبوت، فرعون سے مقابلہ اوربنی اسرئیل کی نافرمانی

prophet-musa-vs-pharaoh


حضرت موسی کی نبوت، فرعون سے مقابلہ اوربنی اسرئیل کی نافرمانی


  حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احوال کا دوسرا حصہ پیشِ خدمت ہے۔ پہلا  پارٹ پڑھنے کے لیے لنک نیچے موجود ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بچپن، نکاح اور پیغمبری


حضرت موسی کا جادوگروں سے مقابلہ اور ان کا مسلمان ہونا

آخر جب وہ ہر طرح سے تنگ ہو گیا تو اس نے تمام ملک میں ڈھنڈورا پٹوایا ، بڑے بڑے جادو گروں کو بلوایا ، چاروں طرف

 ہر کارے دوڑا دیئے اور عید کے دن سب کے سب میدان میں جمع ہوئے۔ اب ایک فرعون تھا، اس کے درباری شاہی

 فوجیں اور اس کی قوم ، اور دوسری طرف غریب اور بے کس حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون تھے۔اللہ کے سوا اور مدد

 دینے والا نہ تھا۔

 جادو گروں نے نظر بندی کر کے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالدیں اور دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوا کہ وہ سب دوڑ رہی ہیں۔

 حضرت موسیٰ   پہلے تو ڈر گئے مگر اللہ تعالی نے کہا تو نہ ڈرتیری ہی فتح ہوگی، تیرے داہنے ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے ڈالدے کہ

 وہ ان سب کو نگل جائے گی، جو کچھ انھوں نے بنایا ہے ۔یہ صرف جادو ہے جہاں اللہ کا حکم آ جائے وہاں جادو کام نہیں کر

 سکتا۔

 اب جو انھوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اثر رہا بن کر سب کو نگل گئی، جادو گروں نے جو دیکھا تو وہ سب کے سامنے سجدے

 میں گر پڑے، اور کہا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے رب پر ایمان لے آئے۔

 فرعون نے غصہ میں آکر کہا تم نے اس کو مان لیا ہے ابھی میں نے حکم نہیں دیا تھا ۔وہی تمہارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو

 سکھائے ہے، تم سب نے مل کر یہ شرارت کی ہے تم سب کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور پھر سب کو سولی پر چڑھا

 دوں گا۔

 مگر ان جادوگروں پر دھمکی کا کچھ اثر نہ ہوا، انھوں نے کہا ہمیں کچھ پر وارد نہیں ہمیں اپنے رب کے پاس جاتا ہے، اور تو بس

 اسی زندگی تک چل سکتا ہے جو کچھ تجھے کرنا ہے کرلے۔ اے ہمارے پالنے والے ہم تجھ پر ایمان لے آئے ہیں، جب ہم پر

 مصیبتیں آئیں تو ہمیں صبر دینا اور دنیا سے مسلمان ہی اٹھانا۔

 فرعون نے ان جادوگروں کو جو مسلمان ہو گئے تھے سولی پر چڑھا دیا اور ان کے ہاتھ پیر کٹوا دیئے ، اتنی تکلیفوں کے ہوتے

 ہوئے بھی وہ ایمان پر قائم رہے۔


 اس واقعہ کے بعد بھی فرعون کی قوم اللہ تعالی پر ایمان نہیں لائی اور اپنے غرور پر رہی۔ اللہ تعالی بڑا مہربان ہے، وہ بار بار

 اپنے بندوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ پاک فرعون اور اس کی قوم کو ڈرانے کے لئے طرح طرح عذاب بھیجتا

 رہا۔ کبھی لوگوں کی نصیحت کے لئے قحط ڈالدیا اور پیداوار کی کمی کے عذاب بھیجتا رہا، مگر جب کبھی ان پر کوئی آفت آتی تو یہی

 کہتے کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست ہے۔پھر اور زیادہ سمجھانے کے لئے ان پر وبا، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک

 اور خون کی نشانیاں بھیجیں، مگر جب کبھی ان پر کوئی عذاب آتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتے کہ آپ ہمارے لئے دعا

 کریں، اگر عذاب ٹل گیا تو ہم ضرور مسلمان ہو جائیں گے، مگر ان کی حالت یہ تھی کہ ادھر عذاب ٹلا اور ادھر وہ اپنے اقرار

 سے پھر گئے۔


 جب ان کی حد ہو گئی تو اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی تمام قوم کو لے کر وہاں سے راتوں رات نکل کھڑے

 ہوئے ، فرعون نے بھی شرارت ااور ظلم سے ان کا پیچھا گیا اور صبح ہوتے ہی ان کو سمندر کے قریب جالیا ۔موسیٰ علیہ السلام

 کے ساتھی چلائے کہ ہم پکڑے گئے آپ نے فرمایا ہر گز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے  راستہ بتا دے گا۔



 اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی صحیح و سالم سمندر کے پارا تار دیا، مگر جب فرعون اور اس کے لشکروں نے ظلم اور شرارت کے

 لئے ان کا پیچھا کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے سب غرق ہو گئے اور یوں اللہ نے ان کو باغوں چشموں اور عالی شان محلوں سے نکالا

 اور پھر ان ظالموں پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین، اور بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا مالک بنا دیا اس لئے کہ وہ صبر کرتے تھے۔


اللہ کی نعمتیں اور من و سلوی

سمندر سے پار ہو کر یہ لوگ مصر کے ریگستانوں میں سفر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دھوپ کی تکلیف سے بچانے کے لئے

 ان پر ابر کا سایہ کر دیا اور ان کے کھانے کے واسطے من و سلوی بھیج دیئے ، ان کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا، اور اور ہر

 ہر ایک کے لئے پانی کا ایک چشمہ مقرر کردیا، مگر زیادہ دیر تک وہ ان چیزوں پر صبر نہ کر سکے اور گیہوں اور ساگ، لکڑیاں

 پہن ، مسور، اور پیاز کی خواہش کی ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجبورا انھیں شہر جانے کی اجازت دیدی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پر گئے کہ اللہ تعالی سے تو

 رات حاصل کریں ان کی غیر حاضری میں ان کی قوم نے سونے چاندی کا ایک پچھڑا بنالیا  اور اسے پوجنا شروع کر دیا، حضرت

 ہارون علیہ السلام نے انھیں بہتر سمجھایا، مگر وہ  مامانے ۔آخر تنگ آگر وہ چپ ہو گئے کہ نہیں ان میں زیادہ اختلاف نہ ہو

 جائے۔

 طور سے واپس آکر آپ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ تم نے بہت برا کیا سب نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، اور آئندہ

 کیلئے تو بہ کی۔


بنواسرئیل کی سرکشی

ایک مرتبہ بنی اسرئیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہم آپ کی کوئی بات نہ مانیں گے، جب تک ہم اپنی آنکھوں سے

 اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں۔ اس کام کے لئے انھوں نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چن لئے اور مقررہ جگہ پر  پہنچ گئے ۔

 یہاں بجلی کی کڑک نے ان کو آلیا ، اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس کے بعد اللہ نے ان کو زندہ کر دیا کہ پھر ایسی بات

 زبان سے نہ نکالیں۔


قوم کی بزدلی اور نافرمانی

حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تم میں نبی پیدا کئے اور تمھیں آزاد کیا ، اب تم ہمت کر کے ملک

 شام پر حملہ کرو، اللہ تمھیں ضرور کامیاب کرے گا، اور اگر بزدلی سے کام لیا تو ضرور نقصان اٹھاؤ گے مگر ان لوگوں نے

 صاف انکار کر دیا اور کہا وہاں کے رہنے والے بڑے بہادر اور جواں مرد ہیں، اور اگر وہ اپنے آپ اس ملک کو خالی کر دیں

 تو ہم ضرور اس ملک پر قبضہ کرلیں گے، ورنہ آپ جانیں اور آپ کا خدا ہم تو یہاں سے ایک انچ آگے نہیں بڑھیں گے ۔


آپ ان کا جواب سن کر بہت ناراض ہوئے اور دعا کی اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو ان  نافرمانوں

 سے  الگ کر دے، اللہ تعالٰی کی طرف سے ارشاد ہوا کہ تم ان بدبختوں سے رنج  نہ کرو، ہم نے چالیس سال

 تک ا ن کا داخلہ ملک شام میں بند کر دیا ہے، یہ جنگل ہی میں بھٹکتے پھریں گے۔