حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حضرت خضرعلیہ السلام سےملاقات

prophet-musa-and-khidr


حضرت موسیٰ  علیہ السلام کی  حضرت خضر علیہ السلام  سےملاقات


تفصیل کی وجہ سےحضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا  احوال تین حصوں میں بیان کیاگیا ہے۔  آپ  اس سلسلے کی تیسری 

 پوسٹ  پڑھ رہے ہیں۔ پہلی دو  پو سٹ پڑھنے کے  لیے لنک نیچے دیے گیے ہیں


  حصہ اول


حصہ دوم


حضرت موسیٰ  علیہ السلام کی حضرت خضر علیہ السلام سےملاقات


قرآن پاک کی سورۃ کہف میں  حضرت موسی علیہ السلام اور اللہ کے ایک بندے کا ذکر ہے اور مفسرین کی اکثریت کے نزدیک اس 

 بندے سے مراد  حضرت خضر علیہ السلام  ہیں۔


 واقعہ کچھ یوں  ہے کہ  ایک دفعہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے خادم کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ چلتے چلتے ایسی جگہ پہنچ گئے

 جہاں دو سمندر ملتے تھے۔ وہاں ان کا خادم  مچھلی بھول گیا اور دونوں آگے بڑھ  گئے۔کچھ دور جا کر انھوں نے اپنے خادم سے

 کہا میں تھک گیا ہوں کھا نالاؤ، اس نے کہا  جب  ہم  چٹان پر سفر کر رہے تھے تو اس وقت مچھلی  دریا  میں چلی گئی تھی  ۔


  حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی جگہ کی تلاش تھی ، اس لئے پھر اسی جگہ پر واپس چلے آئے ۔وہاں انھوں نے اللہ کے ایک

 بندے کو دیکھا اور کہا کہ اللہ نے جو کچھ آپ کو علم دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیجئے، مگر انھوں نے جواب دیا کہ تم صبر نہ کر

 سکو گے۔


 آخر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے زیادہ اصرار کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے  کہا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو

 شرط یہ ہے کہ جب تک میں خود تم سے نہ کہوں  مجھ سے کوئی بات نہ کرنا ، اور نہ ہی پوچھنا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ

 شرط منظور کرلی  اور دونوں سفر پر روانہ ہو گئے۔


 دونوں ایک کشتی پر سوار ہو گئے تو اس اللہ کے بندے نے کشتی کوتوڑ ڈالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پر ناراض ہوئے اور 

 کہا تم نے خواہ مخواہ کشتی توڑ دی۔اس میں سوار لوگ ڈوب جائیں گے ۔انھوں نے شرط یاد دلائی تو آپ نے کہا میں بھول

 گیا، اب ایسا نہیں ہوگا۔


آگے بڑھے تو خشکی پر ایک لڑکا ملا جسے انھوں نے قتل کر ڈالا ، اس پر موسیٰ علیہ السلام بگڑ گئے اور کہا بغیر کسی قصور کے

 لڑکے   کو مار ڈالا ۔ آپ  نے ے بہت برا کیا ، اس پر انھوں نے کہا میں نے کہا تھا  نا کہ  آپ میرے ساتھ نہ چل سکیں

 گے۔  دونوں میں  پھر  قول و قرار ہوا۔


چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے ان کو اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا ، مگر ان دونوں نے دیکھا کہ ایک دیوار

 گرنے والی ہے اس کو انہوں نے درست کر دیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر صبر نہ کر سکے اور کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان

 سے اس کام پر مزدوری مانگ لیتے۔ اللہ کے بندے نے ان سے کہا کہ اب ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے مگر جدا ہونے سے

 پہلے ان قصوں کا مطلب سن لیجئے ۔

کشتی چند غریب آدمیوں کی تھی جو اسے کرایہ پر چلاتے تھے، دریا کے اس طرف کا بادشاہ  زبردستی کشتیاں چھین لیا کرتا تھا، میں

 نے اس کو توڑ دیا کہ عیب دار ہونے کی وجہ سے اسے کوئی نہ لے گا۔

 رہا لڑکے کا سوال ،تو اس کے ماں باپ ایماندار تھے مگر یہ  لڑکاسرکش اور کافر تھا۔ڈر تھا کہ اس کی نافرمانی اور کفر سے ماں

 باپ کو تکلیف  پہنچے، میں نے قتل کر دیا کہ اللہ انھیں مہربان اور نیک بیٹا عطا کرے۔

دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی ، جس کے نیچے ان کی دولت دفن تھی ، ان کا باپ نیک تھا، اگر دیوار گر جاتی تو دوسرے

 لوگ ان کی دولت پر قبضہ کر لیتے ،  اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ دونوں جوان ہو کر اپنا خزانہ نکال سکیں۔

یہ جو کچھ ہوا تمہارے رب کی رحمت کا نتیجہ ہے، میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا۔یہ ہی وہ باتیں تھیں جن پر تم صبر نہ کر

 سکے۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے بعد ایک عرصہ تک بنو اسرائیل کو ہدایت کرتے رہے، برائیوں سے روکتے رہے، اچھائیوں کی

 تاکید کرتے رہے اور آخر کار اپنے اللہ پاک سے جاملے ، جس نے ان کو بھیجا تھا۔


حاصل واقعات

جو قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے تو ان کو تھوڑا تھوڑا عذاب دے کر خبر دار کیا جاتا ہے، وہ اگر پھر بھی نا فرمانی کرتی رہتی ہے

 تو اس کو کچھ عرصہ کے لئے  بالکل ڈھیل دیدی جاتی ہے تا کہ وہ بالکل غفلت میں پڑ جائے ۔پھر ایک دم اللہ کا سخت عذاب

 آکر اس کو بالکل ختم کر دیتا ہے۔

فرعون خود کو خدا کہلواتا تھا بنواسرائیل پر ظلم کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر میں موسیٰ علیہ السلام کو پلایا اور پھر حضرت

 موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے اس کی قوم کو ختم کر دیا۔


دوسرا سبق ہم کو یہ ملتا ہے کہ جو قوم بہت عرصہ تک کسی کی غلام رہتی ہے اس کی رگ رگ میں غلامی بس جاتی ہے۔ غیرت

 بہادری ختم ہو جاتی ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ بار بار وہی غلامی کی باتیں کرے جس طرح بنو اسرائیل نے

آزاد ہونے کے بعد کیں۔


تیسر اسبق ہم کو حضرت خضر علیہ السلام کے قصے سے یہ ملتا ہے کہ اللہ اپنے نیک بندوں کی حفاظت ان کی زندگی میں کرتا ہے

 اور ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔