حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ

Noah in Islam


حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ



حضرت نوح علیہ السلام کا تذکرہ قرآن مجید میں بیالیس جگہ آیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی

 اولاد دنیا میں خوب بڑھی۔ آہستہ آہستہ یہ خدا کو بھولتے گئے جس نے اسے پیدا کیا تھا اور جو

 ان کا پالنے والا ہےاور شیطان کے بہکائے میں آنے لگے جس نے حضرت آدم کو جنت سے

 نکلوا دیا تھا۔شیطان کے بہکائے میں آکر یہ لوگ بتوں اور آگ ، سورج وغیرہ کو پوجنے لگے اور

 ایک خدا کے بجائے مٹی اور پتھر کے بہت سے سے خدا بنا بنا لئے۔ اپنے ہاتھ سے اپنا خدا بناتے

 اور پھر ان سے مانگتے ، حالانکہ یہ مٹی اور پتھر کے خدا اپنے لئے کچھ نہ کر سکتے تھے، ان کے لئے

 کیا کرتے ۔ 

اللہ تعالی نے جو اپنے بندوں سے بڑی محبت رکھتا ہے  اس کو یہ گوارہ نہیں کہ اس

 بندے اس  کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگیں اور اس کی سزا میں مرنے کے بعد

 دوزخ میں جلیں۔

 اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو اپنا نبی بنا کر بھیجا۔ اس زمانہ میں لوگوں کی عمریں بہت

 بڑی بڑی ہوتی تھیں۔حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نوسو سال تک اپنی قوم میں وعظ

 کرتے رہے کہ اے لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور میرا کہا مانو، وہ تمہارے گناہ

 بخش دیگا ۔لیکن لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی باتوں کو نہ مانا اور اپنے کانوں میں

 انگلیاں دے لیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی آواز کانوں تک نہ پہونچے ۔ 


حضرت نوح علیہ السلام ہمت نہ ہارے وہ برابر سمجھاتے رہے اور کہتے رہے۔ اے لوگو! اللہ سے

 معافی مانگو، وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے بارش برسائے گا تا کہ تم خوب اناج

 پیدا کر سکو  اور اس کے ذریعہ سے بڑے بڑے باغ پیدا کر دے گا، ان میں نہریں پیدا کر دے گا۔

تمھیں مال و دولت دے گا اور بیٹے دے گا۔تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کو نہیں مانتے

حالانکہ اس نے آسمان بنائے چاند اور سورج بنائے اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر

 اسی مٹی میں ایک دن تم مل جاؤ گے۔ پھر قیامت کے دن اسی مٹی سے تم کو دوبارہ

 زندہ کر دے گا ۔


لیکن لوگوں نے اپنے بتوں کو نہیں چھوڑااور حضرت نوح علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہم اپنے

 بتوں کو ہر گز نہ چھوڑیں گے اور ہم تو تم کو اپنے جیسا آدمی ہی دیکھتے ہیں اور تمہارا کہنا بھی

 صرف چند غریب لوگوں نے مانا اور ہم تو تم کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔


حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ اے میری قوم میں تم کو جو نصیحت کرتا ہوں اس کے

 بدلے میں تم سے کوئی مال و دولت نہیں چاہتا اور جو غریب آدمی مسلمان ہوئے ہیں، اور اللہ

 پر ایمان لائے ہیں ان کو میں اپنے پاس سےتمہارے کہنے سے نکالوں گا نہیں۔اگر میں ان کو

 اپنے پاس سے نکال دوں تو خدا کے عذاب سے مجھے کون بچائے گا۔ اگر میں ایسا کروں گا تو

 بہت نا انصاف ہو جاؤں گا ۔


 ان کی قوم کے لوگوں نے کہا اے نوح علیہ السلام تم نے ہم سے جھگڑا بہت کر لیا، اگر تم سچے

 ہو تو جس عذاب سے تم ہم کو ڈراتے ہو وہ لے آؤ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ جب

 اللہ پاک چائیں گے عذاب لے آئیں گے۔


 اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ سے حکم بھیجا کہ تمہاری قوم میں جو لوگ 

ایمان لا چکے ہیں  ان کے علاوہ اور کوئی ایمان نہیں لائے گا ۔تم غم نہ کرو، ایک کشتی بناؤ۔


 حضرت نوح علیہ السلام نے خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانی شروع کی تو جب ان کی قوم کے

 سرداران کے پاس سے گزرتے تو ان کو کشتی بناتے ہوئے دیکھتے تو ان کا مذاق اڑاتے ۔حضرت

 نوح علیہ السلام ان کے مذاق کے جواب میں کہتے کہ آج مذاق کر لو کل جب تمہارے اوپر

 عذاب آئے گا تو اس وقت ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے۔


 آخر اللہ تعالی کا عذاب اس کے وعدے کے مطابق آیا۔زمین سےپانی نکلنا شروع ہوا،اور

 آسمان سے بارش آنی شروع ہوئی۔اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ سب

 جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لواور جو لوگ تمہارے اوپر ایمان لائے ہیں یعنی

 مسلمان ہو گئے ہیں ان کو سوار کرلو۔حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی میں سوار ہونے

 والوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کشتی میں سوار ہو جاؤ کہ اس کا چلنا اور ٹھہر نا

 اسی کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔



 کشتی ان سب کو لے کر لہروں میں چلنے لگی تو اس وقت حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے

 سے کہا، اے بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، اور کافروں کے ساتھ مت ہو، اس نے کہا میں

 کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا، اور وہ پانی سے بچالے گا۔

حضرت نوح علیہ السلام نے کہا آج خدا کے عذاب سے سوائے خدا کے کوئی بچانے والا نہیں

 اتنے میں دونوں کے درمیان ایک پانی کی لہر اٹھی اور وہ   ڈ وب گیا ۔



پھر خدا تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی  نگل  جااور آسمان کو بھی حکم دیا کہ پانی برسا نا

 بن کر دے یہاں تک کہ پانی خشک ہو گیا اور تمام کا فر دنیا میں ختم کر دیئے گئے۔ حضرت

 نوح کی کشتی کوہ جودی پر ٹھہری۔حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے عرض کیا

 اے میرے رب میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے ہے اور آپ کا وعدہ سچا ہے۔ یعنی

 حضرت نوح علیہ السلام کا مطلب تھا کہ اے اللہ تعالی آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ تیرے گھر

 والوں کو اس طوفان سے بچا لوں گا ، پھر میرا بیٹا کیوں ڈوبا۔


 خدا وند تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح تیری بیٹا تیرے گھر والوں میں سے نہیں تھا، کیونکہ اس

 کے عمل اچھے نہیں تھے، میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی بات نہ کر جو تیرے علم میں

 نہیں ( اس لئے کہ کنعان اللہ کے علم ازلی میں کافر تھا، اور یہ بات نوح علیہ السلام کے علم

 میں نہ تھی )۔



 حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ پاک سے توبہ کی اور اپنے کہنے کی معافی چاہی، اللہ پاک نے ان

 کو معاف کر دیا اور حکم دیا کہ اے نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اتر۔


 اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی امت سے دنیا بھی اور آہستہ آہستہ ان کے بال بچے

 آباد ہوتے گئے۔ یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہے، زمانہ گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ

 شیطان نے پھر بہکانا شروع کیا تو یہ لوگ خداوند تعالی کو بھولنے لگے۔


سبق


حضرت نوح علیہ السلام جو اللہ تعالی کے اتنے بڑے پیغمبر تھے، اپنے بیٹے کو اسکے برے کاموں

 کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچا سکے۔ اس طرح اگر ہمارے ماں باپ اللہ کے کتنے

 ہی ولی کیوں نہ ہوں اگر ہمارے عمل اچھے نہ ہوں تو وہ ہم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچا

 سکیں گے۔ ہم کو اپنے بزرگوں کے نیک عمل کا سہارا نہیں لینا چاہئے بلکہ اللہ اور اس  کے

 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے کاموں پر عمل کرکے نیک بنا چاہتے ۔اس وجہ سے

 اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کہا ہے کہ اگر تم ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرو گے تو اس کا بدلہ ہم

 تم کو دیں گے اور اگر ایک ذرہ برابر بھی برا عمل کرو گے تو وہ بھی تمہارے سامنے آجائیگا۔



:مزید پڑھیں