حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ ۔ پارٹ 2

hazrat-yusuf-became-king-of-egypt


جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بنے

کہانی کا پہلا  پارٹ پڑھیں

   جب  حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا


حضرت یوسف جب جیل سے رہا ہو گئے تو بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف کو عزت کے ساتھ بلایا جائے ، میں شاہی خدمت ان کے

 سپرد کروں گا۔ حضرت یوسف آئے اور بادشاہ سے بات چیت کی۔ حضرت یوسف نے کہا کہ مجھ کو شاہی خزانے کا وزیر مقر کیجئے

 میں اس کی بہتر حفاظت کروں گا۔ بادشاہ نے منظور کیا اور انہیں شاہی خزانے کا وزیر مقر کر دیا۔


حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ بن گئے

آخر کار وہ قحط کا زمانہ آگیا جس کا بادشاہ نے خواب دیکھا تھا۔ اور اس کا اثر اس جگہ بھی پہنچا جہاں حضرت یوسف کے والد

 اور بھائی بھی رہتے تھے۔ چناںچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو غلہ لا نےکے لئے مصر میں حضرت یوسف کے

 پاس بھیجا۔ جب حضرت یوسف کے بھائی آئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو پہچان لیا اور بھائی یوسف کو پہچان

 نہ  سکے۔

 حضرت یوسف نے ان کو غلہ دیا اور کہا کہ اگلی دفعہ آؤ تو اپنے دوسرے بھائی کو بھی ساتھ لے کر آتا، ورنہ میں تم کو غلہ

 نہیں دوں گا  اور اپنے ملازمین سے کہ دیا کہ جو قیمت انہوں نے غلہ کی دی ہے وہ بھی چپکے سے ان کے سامان میں رکھ دو

 تاکہ وہ پھر مصر آئیں۔ 


جب یہ لوگ اپنے شہر کنعان پہنچے تو اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ ابا جان! اب کے ہمارے ساتھ بھائی کو

 بھیجئے ورنہ ہم کو غلہ نہیں ملے گا اور ہم اس کی خوب حفاظت کریں گے۔


جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا اور اس میں ساری رقم دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، پھر باپ سے کہا کہ دیکھئے شاہ مصر نے

 ہماری رقم بھی واپس کردی ہے، آپ ہمارے ساتھ بھائی کو ضرور بھیجئے  ، ہم خوب حفاظت کریں گے اور ہم کو سامان

 بھی زیادہ ملے گا۔


حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ جب تک تم اللہ کا عہد مجھ کو نہ دو کہ اس کی حفاظت کرو گے اور اس کو سب کے ساتھ

 رکھو گے اس وقت تک میں اس کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا، آخر کا ر سب بھائیوں نے عہد کیا۔

 حضرت یعقوب علیہ  السلام نے ان کو نصیحت کی کہ تم سب ایک دروازہ سے داخل مت ہونا۔ جب یہ سب علیحدہ علیحدہ

 دروازوں سے داخل  ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے سگے بھائی بنیامین کو بتایا کہ میں تمہارا سگا بھائی ہوں اور میں

 تم کو اپنے پاس  رکھوں گا۔


جب ان سب کا سامان تیار ہو گیا تو حضرت یوسف نے اپنا ایک برتن اپنے  سگے بھائی کے سامان میں چپکےسے  رکھوا دیا اور

 اعلان ہوا کہ شاہی کٹورا کم ہو گیا ہے، جس نے لیا ہو وہ دے دے اس کو ایک اونٹ غلہ انعام میں دیا جائے گا۔

  سب بھائیوں نے انکار کیا، بادشاہ کے آدمیوں نے کہا کہ جس کے سامان سے نکلے اس کو روک رکھیں اس کی یہی سزا ہے

   اور ہمارے ملک کا بھی یہی قانون ہے ۔ 


 پھر تمام بھائیوں کی تلاشی لی گئی اور  یامین کے سامان میں سے وہ کٹورا نکلا۔ اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام

نے اپنے بھائی یا مین کو اپنے پاس روک لیا۔ بھائیوں نے دیکھا تو کہنے لگے اس کا بھائی بھی چور تھا ، حضرت یوسف

علیہ السلام نے سب کچھ سنا اور خاموش رہے۔


 اب سب بھائیوں نے مل کر حضرت یوسف علیہ السلام سے درخواست کی کہ اس کا باپ بہت بوڑھا ہے، اس پر رحم کھا کر

 اسے چھوڑ دیجئے اور اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیجئے۔حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی پناہ جو چور کو چھوڑ

 کر بے گناہ کو پکڑوں۔جب یہ لوگ بالکل مایوس ہو گئے تو سب نے مل کر مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے تو سب سے بڑے

 نے کہا تم نے اللہ کی قسم کھا کر اپنے باپ کو یقین دلایا تھا کہ اس کو ضرور واپس لاؤ گے پھر یوسف کے ساتھ ہم نے جو حرکتیں

 کیں وہ تم سے چھپی نہیں ، اس لئے میری تو ہمت نہیں کہ باپ کو منہ دکھاؤں، یا خود حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ کوئی

 دوسری صورت پیدا کر دیں تو اور بات ہے، تم لوگ جاؤ اور جو کچھ ہوا ہے ٹھیک ٹھیک اپنے باپ سے بیان کر دو، اگر وہ اپنی

 تسلی کرنا چاہیں تو اس گاؤں کے لوگوں سے پوچھ لیں کہ جہاں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلہ سے معلوم کر لیں جس کے ساتھ

 ہم آئے ہیں۔


 اس مشورہ کے بعد یہ لوگ گھر پہنچے اور والد صاحب کو تمام قصہ سنایا، انھوں نے سنتے ہیں فرمایا تمہارے دلوں نے یہ بات گھڑ

 لی ہے، بہر حال صبر اچھا ہے، امید ہے کہ اللہ ہم سب کو ایک جگہ جمع کر دیگا، وہی خوب جانتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور

 ان سے دوسری طرف رخ کر لیا۔حضرت یوسف علیہ السلام کے غم سے ان کی آنکھیں سفید ہو گئی تھیں۔ یوسف کے بھائیوں

 نے کہا، ابا جان آپ تو یوسف کو یاد کرتے ہوئے گھل جائیں گے اور جان دیدیں گے۔

انھوں نے فرمایا میں اپنی شکایت تو اللہ سے کرتا ہوں اور میں ایسی باتیں جانتا ہوں جن کی تمھیں خبر نہیں، جاؤ یوسف اور

 اسکے بھائی کو تلاش کرو وہ مصر ہی میں کہیں نہ کہیں مل جائیں گے اللہ کی رحمت سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔


حضرت یوسف کی بھائیوں سے ملاقات

اب ایک بار پھر سب بھائی مل کر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے ۔حضرت یوسف علیہ السلام سے گھر والوں کی

 میری حالت بیان کی اور کہا کہ ہم  اپنے ساتھ بہت تھوڑا سامان لاے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ آپ پورا پورا غلہ دیں ۔حضرت

 یوسف نے اپنے گھر کا یہ حال سنا تو بیتاب ہو گئے ان سے رہا نہ گیا اور انھوں نے اپنے بھائیوں سے کہا تم جانتے ہو کہ تم نے

 یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ہے؟ بھائیوں نے نہایت تعجب اور حیرانی کے ساتھ پوچھا کہ کہیں آپ ہی تو یوسف

 نہیں؟


آپ نے فرمایا: ہاں میں ہی یوسف ہوں ، اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا بے شک جو شخص نیک زندگی بسر

 کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے، اللہ اس کا بدلہ دیتا ہے ۔جب تمام بھائیوں کو یقین ہو گیا کہ جس کے دربار میں ہم

 اس وقت کھڑے ہیں ہمارے بھائی یوسف ہیں تو سب نے مل کر اپنے گناہوں کا اقرار کیا، آپ نے فرمایا تم  فکر نہ  کرو

 تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمام گناہوں کو معاف کرے وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

جاؤ میرا کرتا میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو ان کی بینائی لوٹ آئے گی اور پھر سب کو یہاں لے آؤ۔


ادھر قافلہ مصر سے روانہ ہوا اور اُدھر حضرت یعقوب نے اپنے گھر والوں کو یہ خوش خبری دی کہ مجھے یوسف کی بو آ رہی ہے

 انھوں نے سنا تو کہا کہ تمہارے سر پر ایک ہی خبط سوار ہے۔


 آخر قافلہ آگیا ، حضرت یوسف کا کرتا ان کے سامنے رکھ کر تمام حالات سنائے تو انھوں نے گھر والوں سے کہا، دیکھو

میں نے تم سے نہیں کہا تھا۔ سب بیٹوں نے مل کر آپ سے گناہوں کی معافی مانگی اور مصر کو چل دیئے۔


حضرت یوسف سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ماں باپ کو اپنے پاس ٹھہرایا اور کہا خدا چاہے تو مصر میں امن اور آرام کے

 ساتھ رہیے۔ پھر ان کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا ، سب کے سب بھائی شاہی آداب بجالائے۔ آپ نے فرمایا یہ میرے

 خواب کی تعبیر ہے، اللہ نے اس کو سچ کر دکھایا ، اس نے مجھ پر بڑا احسان کیا جو مجھے قید سے چھڑایا، اور شیطان نے جو فساد

 میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان ڈال دیا تھا ، آپ سب کو دیہات و بیابان سے یہاں لے آیا، بیشک میرا رب خیر کی

 حکمت جانتا ہے۔


 حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی ، اے میرے پروردگار تو نے مجھے حکومت دی، باتوں کا مطلب سمجھا دیا، اسے زمین و

 آسمان کے پیدا کرنے والے خدا! تو ہی   دنیا اور آخرت میں میرا کام بنانے والا ہے، مجھے مسلمان ہی مارنا اور نیک بندوں کے

 ساتھ ملا دینا۔ 


 ایک عرصہ تک حضرت یوسف  علیہ السلام اللہ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق مصر میں حکومت کرتے رہے لوگوں کو اللہ کی 

 طرف بلاتے  رہے، برائیوں سے روکتے رہے، بھلائیوں کو پھیلاتے رہے، ملک مصر کو اچھائیوں سے بھر دیا، اور بالآخر

اللہ کے پاس چلے گئے  اور آپ مصر میں دفن ہیں۔


سبق

 دیکھئے حضرت یوسف کو بھائیوں کی وجہ سے کیسی کیسی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، اندھیرے کنویں میں رہے، غلام بنے، جیل خانہ

 میں رہے  لیکن جب یہ سب اللہ کی آزمائشیں پوری ہو گئیں اور اللہ پاک نے ان کو مصر کا بادشاہ بنادیا تو بھائیوں سے کوئی

 بدلہ نہیں لیا، بلکہ اللہ تعالی سے ان کے گناہوں کی معافی کے لئے دعا کی اور خود بھی معاف کر دیا۔


 ہمیں بھی اپنے  بھائیوں کے ساتھ یہی کرنا چاہئے۔قرآن شریف میں ایک دوسرے جگہ ہے جس کا مطلب یہ ہے اگر تمہارے

 ساتھ کوئی زیادتی کرے اور تم اس کے بدلے اس کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرو  تو وہ دشمن تمہارا حقیقی دوست بن جائے گا۔

 اللہ ہم سب کو ایسی ہی توفیق دے۔ آمین۔