حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بت پرست قوم

story of Prophet Ibrahim

حضرت ابراہیم علیہ السلام  اور  بت پرست قوم


 حضرت ابراہیم علیہ السلام   کا ذکر قرآن شریف میں ۸۶ جگہ آیا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام جید الانبیا   میں سے ہیں۔ آپ کا

 لقب خلیل اللہ ہے جس کا معنی ہے اللہ کا دوست۔

   دنیا میں جب بت پرستی کا زور ہو گیا، لوگ بتوں کو بناتے اور خود ان کی پوجا کرتے حضرت ابراہیم کے والد بھی بت

 بناتے تھے  اور بتوں کو خدا سمجھتے تھے۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام ابھی بچے ہی تھے، وہ دیکھتے کہ میرے والد اور دوسرے لوگ خود ہی مٹی اور لکڑی سے بتوں کو

 بناتے  ہیں اور پھر ان کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ حیران ہوئے کہ یہ سب لوگ کس قدر بے وقوف ہیں کہ ان بےجان مورتیوں

 کو خدا  سمجھ رہے ہیں۔


حضرت ابراہیم السلام ان لوگوں سے کہتے کہ تم لوگ کیوں ان بتوں کو پوجتے ہو، یہ تمہیں نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔

 مگر وہ جواب دیتے کہ جوہمارے باپ دادا کرتے ہیں ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔


ایک روز ان لوگوں کا شہر سے باہر کوئی بڑا میلہ ہوا یہ سب لوگ اس میلے میں شریک ہونے شہر سے چلے گئے ، حضرت ابراہیم

 اس میلے میں نہ گئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام شہر  کے بڑے بت خانے میں گئے اور وہاں کے سب بتوں کو

 توڑ ڈالا سوائے ایک سب سے بڑے بت کے۔ اور کلہاڑی جس سے سب بتوں کو توڑا تھا وہ اس بڑے بت کے کاندھے پر

 رکھ دی جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب اس نے توڑے ہیں۔


لوگ جب واپس آئے اور انھوں نے بتوں کی یہ درگت دیکھی کہ کسی کا سر نہیں ہے تو کسی کا پیر نہیں تو بہت غصہ ہوئے کہ یہ

 حرکت کس نے کی ہے، سب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر  شبہ  کیا   کہ وہی بتوں کو برا کہتے تھے، اور میلے بھی نہیں گئے تھے

 آخر ان کو بلا کر پوچھا کہ یہ بت کس نے توڑے ہیں۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ مجھ سے پوچھنے کے بجائے اپنے خداؤں سے کیوں نہیں پوچھتے جن کی تم عبادت

 کرتے ہو، کہ ان کو کس نے توڑا ہے وہ خود بتا دیں گے۔

ان لوگوں نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ بول نہیں سکتے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ پھر تم ایسے بیکار

 خداؤں کی پوجا کرتے ہو؟

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر کہا کہ دیکھو کلہاڑی بڑے بت کے کاندھے پر رکھی ہے، یہ کام اس کا معلوم ہوتا ہے، اس

 سے پوچھو۔لوگ بہت ناراض ہوئے ، اور ان کے باپ آزر سے شکایت کی کہ تمہارا بیٹا ایسی حرکت کر رہا ہے اس

کو سمجھا لو ورنہ اچھا نہ ہوگا۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو بھی سمجھایا، اور بت پرستی سے منع کیا، اور عرض کیا کہ اے باپ میں ڈرتا ہوں کہ

 تم پر خدا کا کوئی عذاب نازل نہ ہو، اس پر ان کے باپ بہت سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ آئندہ تو نے مجھ سے کوئی ایسی

 بات کہی تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، اور کہا کہ تو میرے پاس سے ہمیشہ کے لئے چلا جا، آپ نے باپ کو سلام کیا اور کہا

 کہ میں چلا جاتا ہوں لیکن تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔


 مزید پڑھیں  : حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سب سے بڑی قربانی