حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ

story of prophet sulaiman


 حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ


حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔حضرت داود علیہ السلام  کے بارے میں پڑھنے کے لیے پوسٹ

 کا لنک نیچے دیا گیا ہے۔


حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ



قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر سورہ  بقرہ، سورہ انعام سورہ انبیاء ، سورہ نمل ، سورہ سباء اور سورہ صٰ میں 

 آیا ہے۔

 اللہ تعالی نے آپ کو بھی نبوت اور بادشاہت دونوں عطا کی تھی۔ انسانوں کے علاوہ جن ، ہوا، اور جانور بھی آپ کے تابع کر 

 دیئے تھے۔ آپ ان سب کی بولیاں بھی سمجھتے تھے اور بولتے تھے۔


 آپ کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو بہت عروج حاصل ہوا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی حضرت داود علیہ السلام  کی طرح 

 باوجود اتنی طاقت اور سلطنت کے اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے، ان کو دنیا کی بڑی سے بڑی چیز بھی اللہ کی یاد سے غافل

 نہیں کر سکتی تھی۔


 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ اعلیٰ درجہ کے گھوڑوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھتے دیکھتے عصر کی نماز کو دیر ہوگئی ، آپ نے ان

 کو پھر بلایا اور ان کی پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ ڈالیں تا کہ جن کی محبت نے اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ان کو ختم کر دیا جائے۔


 ایک دفعہ کا ذکر ہے آپ اپنی فوجوں کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے چلتے چلتے چیونٹیوں کی دادی میں پہنچے، ایک چیونٹی نے کہا

 اپنے اپنے گھروں  میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمھیں تباہ کر دے اور انھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔


 آپ چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور کہا کہ اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں ، جو تو نے مجھے

 اور میرے ماں باپ کو دی ہیں اور ایسے نیک کام کروں جن سے تو خوش ہو اور اپنی مہربانی سے میرے مرنے کے 

بعد مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے پرندوں کی حاضری لی تو اس میں ہُدہُد نظر نہیں آیا ، آپ نے فرمایا کہ اس کی غیر حاضری پر ہم

 اس کو سخت سزا دیں گے، ورنہ اس غیر حاضری کی وجہ بیان کرے۔

 تھوڑی دیر بعد ہُدہُد آگیا، اس نے عرض کیا کہ سبا کے شہر سے بالکل صحیح خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے ایک عورت دیکھی ہے

 جو وہاں حکومت کرتی ہے، اس کے پاس ہر طرح کا سامان ہے، اس کا بہت بڑا تخت ہے، ملکہ اور اس کی قوم کے لوگ

 سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کو سیدھے راستہ سے روک دیا ہے۔


ہُدہُدنے بیان ختم کیا تو آپ نے اس ملکہ کے نام خط دیا۔ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت بڑا مہربان نہایت رحم

 کرنے والا ہے۔ ہم سے سرکشی نہ کرو اور فرمانبردار ہو کر ہمارے دربار میں حاضر ہو۔ اور فرمایا کہ اسے سبا کی ملکہ کے پاس لے

 جاؤ پھر دیکھو وہاں سے کیا جواب ملتا ہے؟


سبا کی ملکہ نے جس کا نام بلقیس تھا، یہ خط اپنے درباریوں کو پڑھ کر سنایا  اور ان سے پوچھا کہ تم اس کی بابت کیا کہتے ہو ؟

 سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم بڑے طاقت والے اور بڑے لڑنے والے ہیں، ویسے آپ کو اختیار ہے جو حکم دیں۔


ملکہ نے کہا! بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور ایسا ہی یہ بھی کریں گے میں ان

 کے پاس کچھ  تحفے بھیج کر دیکھتی ہوں کہ میرےا یلچی  کیا جواب لاتے ہیں۔


 جب ا یلچی  تحفے لے کر آئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ،تمہارے تحفے تم ہی کو مبارک ہوں تم انھیں واپس لے

 جاؤ۔

 جب ا یلچی نے واپس جا کر بلقیس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی  ساری باتیں بیان کیں  تو وہ دربار میں حاضر ہونے کی

 تیاریاں کرنے لگی ۔


 ا یلچی کے واپس جانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے دربار والوں کو حکم دیا کہ ملکہ کے تخت کو ہمارے پاس لا

 کر حاضر کرو۔ ایک بڑا د یو بولا کہ میں اس سے پہلے کہ آپ دربار سے جائیں، آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا، مگر  اور  ایک

 شخص کہ جس کو اللہ نے کتاب کا علم دیا تھا، اس نے کہا کہ میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لے آؤں گا۔ چنانچہ جب

 تخت آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، تو آپ نے فرمایا کہ میرے اللہ کا امتحان ہے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نہیں۔

 

بہر حال تخت کو صورت بدل کر بچھا دیا گیا اور بلقیس آگئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تخت

 بھی ایسا ہی ہے؟ بلقیس نے جواب دیا یہ تو بالکل ویسا ہی ہے اور ہم تو پہلے ہی آپ کی شان و شوکت اور قوت و طاقت کو

 جانتے تھےاور آپ کو مان گئے تھے۔جس چیز کو یہ اللہ کے سوا پوجتی تھی اس نے اس کو اب تک سلیمان

کے پاس آنے سے روک رکھا تھا۔


 پھر بلقیس سے محل میں جانے کو کہا گیا جب اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا محل دیکھا جو شیشے کا بنا ہوا تھا، اور معلوم

 ہوتا تھا کہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔ بلقیس نے اس میں سے گزرنے کے لئے اپنے پائنچے اوپر اٹھا لئے اور اپنی دونوں پنڈلیاں

 کھولدیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا یہ حل ہے جس میں کیسے جڑے ہوئے ہیں۔ 


 جب بلقیس کو اپنے مذہب کی غلطی معلوم ہوئی تو پکا راٹھی، اے اللہ ! میں نے جو اتنی مدت تک سورج کی پوجا کی، اور میری

 وجہ سے میری قوم بھی اس کو پوجتی رہی، تو میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ۔اب میں سلیمان کے ساتھ تمام جہانوں کے پالنے

 والے پر ایمان لاتی ہوں۔


 حضرت سلیمان علیہ السلام اتنے بڑے نبی اور اتنے بڑے بادشاہ تھے کہ انسان، جن، پرندے، اور ہوا سب ان کے تابع تھے،

 مگر آپ غریبوں اور بے کسوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے چٹائیاں اور ٹوکریاں بنا کر روزی کماتے تھے۔

 ہر وقت یاد الہی میں مشغول رہتے ، راتوں کو بہت کم سوتے ، دن میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے بس یہی ان کی زندگی

 تھی۔


مزید پڑھیں

حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت