حضرت یو سف علیہ السلام کا قصہ


prophet-yousaf-urdu-story



 جب حضرت یو سف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا 

قرآن پاک میں  حضرت یو سف علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اور  ایک پوری

 سورت حضرت یو سف علیہ السلام  کے نام سے منسوب ہے۔  اس واقعہ کو " احسن

 القصص "  یعنی سب سے اچھی کہانی قرا ر دیا گیا ہے۔

 حضرت یو سف علیہ السلام  کے قصے میں   ہمارے    لیے  بہت سی    نصیحتیں  موجو د ہیں۔

 

حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے تھے اور یعقوب علیہ

 السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام حضرت 

 ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہوئے۔


 حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام سب سے چھوٹے

 تھے، بہت خوبصورت تھے ، باپ ان کو بہت چاہتے تھے۔


 حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج مجھے

 سجدہ کر ر ہے ہیں، انہوں نے یہ خواب اپنے باپ کو بتایا ، باپ نے حضرت یوسف کو منع کر

 دیا کہ یہ خواب اپنے سوتیلے بھائیوں کو نہ بتائیں۔


 حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں نے مل کر مشورہ کیا کہ ہمارے ابا جان یوسف

 علیہ السلام کو بہت چاہتے ہیں اور ہم کو اتنا نہیں چاہتے، اس لئے یوسف کو جان سے مار دیا

 جائے لیکن ان میں سے ایک نے کہا کہ جان سے مت مارو بلکہ یوسف کو ایسے کنویں میں

 پھینک دو جس میں پانی نہ ہو سب نے مل کر یہ بات طے کر لی۔


یہ سب بھائی اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ یوسف کو ہمارے ساتھ کھیلنے کے لئے

 بھیج دیں، ان کے باپ حضرت یعقوب نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم کھیل میں لگ جاؤ اور کوئی بھیڑ یا

  جنگل میں اس کو کھا جائے۔ بھائیوں نے کہا کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔


 سوتیلے بھائیوں نے جب اصرار کیا تو آ  خر باپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا۔

  بھائیوں نےے ان کو ساتھ لے جا کر ایک اندھیرے کنویں میں پھینک دیا، اور رات کو روتے ہوئے گھر 

 واپس آئے اور کہا کہ ابا جان ہم آپس  میں  دوڑ لگا ر ہے تھے اور یوسف ہمارے سامان کے

 پاس بیٹھا تھا کہ ایک بھیڑ یا   آیا اور اس کو کھا گیا ، ثبوت کے لیے ایک کرتا خون لگا کر باپ کو

 دکھایا۔ 

حضرت یعقوب  علیہ السلام نے کہا تم یہ بات اپنے پاس سے بنا لا ئے  ہو، اصل بات کچھ اور ہے

لیکن اب صبر کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے، میں اپنی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ 

  بوڑھے باپ کیا کرتے ، صبر کیا خاموش ہو گئے لیکن بیٹے کی جدائی میں روتے رہے۔


 جس کنویں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو پھینکا تھا اس کے قریب ہی ایک قافلہ آیا اور

 انہوں نے پانی نکالنے کے لئے ڈول کنویں میں ڈالا ، دیکھا کہ ایک خوبصورت لڑکا کنویں میں ہے

 ان کو باہر نکال لیا اور جب قافلہ مصر پہنچا تو وہاں پر مصر کے بادشاہ نے ان قافلے والوں کو

، تھوڑی قیمت دے کر  یوسف علیہ السلام کو خرید لیا اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ اس کو پالو 

 ہو سکتا ہے  کہ ہم اس    کو اپنا  بیٹا بنالیں ۔ 


 حضرت یوسف علیہ السلام جوان ہو گئے ، ان کی خوبصورتی وجاہت و عقل مندی اور بڑھ گئی۔

 زلیخا عزیز مصر کی بیوی ان پر فریفتہ ہوگئی اور ان کو  نفس کی جانب سے پھلانے لگی۔


 ایک روز اس نے کمرے کے سارے کے سارے دروازے بند کر دیئے ، حضرت یوسف علیہ

 السلام نے یہ حالت دیکھی تو خدا سے پناہ مانگی اور دروازے کی طرف بھاگے، زلیخا نے پیچھے سے

 آپ کی قمیص پکڑ لی جس سے قمیص پھٹ گئی۔

 اس وقت عزیز مصر یعنی زلیخا کا شوہر بھی دروازے پر آگیا ۔زلیخا نے الٹا الزام حضرت یوسف

 علیہ السلام پر لگایا اور اپنے خاوند سے کہا کہ یہ شخص تیری بیوی کی بے آبروئی کرنا چاہتا تھا

 جس کی سزا اسکوملنی چاہیے۔


 حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا میں بے گناہ ہوں بلکہ یہ عورت مجھ کو پھیلانے کی کوشش کر

 رہی تھی مگر خدا نے مجھے اس سے بچالیا ۔


آخر یہ معاملہ قاضی کے پاس پیش ہوا، قاضی نے حضرت یوسف سے صفائی کے لئے گواہ طلب

 کئے۔حضرت یوسف نے عزیز مصر کے خاندان کے ایک معصوم اور ننھے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ 

 یہ اس وقت موجود تھا، یہ سچی گواہی دے گا۔ ننھے بچے نے کہا کہ اگر تمھیں آگے سے پھٹی ہوئی 

 ہے تو یوسف مجرم ہیں، اور اگر میں پیچھے سے پھٹی ہوتی ہے تو یوسف سچے ہیں اور  زلیخا  جھوٹی

 ہے۔


جب حضرت یوسف کا کرتا دیکھا گیا تو وہ پیچھے سے پھٹا تھا، عزیز مصر نے حضرت یوسف سے کہا

 کہ اس بات کو جانے دو اور زلیخا سے کہا کہ تو معافی مانگ، حقیقت میں تو ہی قصور وار ہے۔


عورتوں کی دعوت

اس واقعہ کی خبر سارے مصر میں پھیل گئی اور عورتیں آپس میں باتیں کرنے لگیں کہ زلیخا

 اپنے غلام کو چاہتی ہے۔جب زلیخا کو اس کا علم ہوا تو اسے اپنی بدنامی کا خیال آیا ، اس نے

 ترکیب سوچی وہ یہ کہ اس نے مصر کی عورتوں کی دعوت کی اور سب کے ہاتھوں میں ایک ایک

 چھری اور ایک ایک پھل دے دیا اور اسی وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو وہاں لے آئی۔

 عورتوں نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال اور خوبصورتی کو دیکھا تو وہ سب

 اپنے ہوش میں نہ رہیں اور چھریوں سے بجائے پھلوں کے اپنے ہاتھوں کو کاٹ لیا اور کہنے

 لگیں واقعی یہ کوئی انسان نہیں فرشتہ ہے۔


 زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جس کے لئے تم مجھے ملامت کرتی ہو، میں

 حقیقت میں اس کو چاہتی ہوں، اگراس نے میری محبت کو ٹھکرادیا تو میں اس کو قید

 کرادوں گی۔


حضرت یوسف جیل میں

حضرت یوسف علیہ السلام کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ اے اللہ

 تو ہی مجھ کو بچا سکتا ہے، اگر میں ان عورتوں کے قریب میں آگیا تو میں جاہلوں میں سے ہو

 جاؤں گا، اس سے یہ بہتر ہے کہ مجھے قید خانہ میں ڈال دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف

 علیہ السلام کی دعا قبول کی اور وہ جیل میں ڈال دیئے گئے۔


 حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے جیل میں دو قیدی اور بھی تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام

 سے پہلے جیل میں ایک شاہی باورچی اور دوسرا بادشاہ کو شراب پلانے والا ساقی ، ان کے خلاف

 الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے۔


 حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں قیدیوں کو اللہ تعالیٰ کی باتیں بتاتے رہے اور خدا کا پیغام

 پہنچاتے رہے۔ایک دن یہ دونوں قیدی حضرت یوسف کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم

 نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے، ساقی نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ بادشاہ کو انگور کی شراب پلا

 رہا ہوں ۔ باورچی نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیاں ہیں اور پرندے ان کو

 نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ یہ خواب بیان کرنے کے بعد انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام

 سے اس کی تعبیر پوچھی۔

 حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ ساقی تو جیل سے چھوٹ جائے گا، اور پھر بادشاہ کی

 ملازمت میں جا کر اس کو شراب پلائے گا، اور باورچی کو سولی پر چڑھا دیا جائے گا، اور اس کی

 لاش کو جانور کھائیں گے۔ ایسا ہی ہوا، اللہ تعالی نے ساقی کو رہا کرا دیا اور باورچی کو سولی

 ہوگئی۔ 


حضرت یوسف علیہ السلام ان کے بعد بھی سالوں جیل میں رہے لیکن کسی کو ان کی رہائی کا

 خیال نہ آیا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ مصر کے بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات دہلی گائیں، سات

 موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں، اور سات ہری اور سات سوکھی ہوئی بالیں دیکھیں۔

بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اس کی تعبیر تری بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھی، مگر کوئی

 بھی صحیح جواب نہ دے سکا، اس موقعہ پر ساقی کو یاد آیا کہ اس نے اپنا خواب حضرت یوسف

 سے پوچھا تھا اور آپ کا جواب بالکل صحیح ہوا تھا، اس نے کہا کہ جیل میں ایک شخص ہے جو

 خواب کی صحیح تعبیر بیان کرتا ہے۔

 

بادشاہ سے جس کو عزیز مصر کہتے تھے اجازت لیکر وہ جیل گیا اور حضرت یوسف سے سارا واقعہ

 بیان کیا ۔ حضرت یوسف نے فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر تو یہ ہے کہ سات سال ملک میں

 خوب عملہ پیدا ہو گا، اور سات سال سخت قحط پڑے گا ، اور پھر ایک سال آئے گا جس میں

 خوب بارش ہوگی اور غلہ ہوگا۔


 جب اس شخص نے بادشاہ کو جا کر یہ خبر سنائی تو اس نے کہا کہ حضرت یوسف کو بلایا جائے،

 جب وہ دوبارہ حضرت یوسف کے پاس گیا اور بادشاہ کا پیغام سنایا، تو آپ نے فرمایا ان

 عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔بے شک میرا رب ان کے مکرو

 فریب سے واقف ہے۔


بادشاہ نے ان عورتوں کو بلا کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے حضرت یوسف میں کوئی برائی

 نہیں دیکھی ۔یہ دیکھ کر زلیخا بھی بولی کہ اب جب کہ حق ظاہر ہو گیا ہے، سچ بات یہ ہے کہ

 میں نے ہی حضرت یوسف کو ورغلایا تھا اور وہ بالکل سچا ہے۔ 


مزید پڑھیں

جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بنے