اللہ کے آخری نبی کا آخری خطبہ، خطبہ حجتہ الوداع

Khutba e Arafaat in Urdu


اللہ کے آخری نبی  کا آخری خطبہ، خطبہ حجتہ الوداع 


 خطبہ حجتہ الوداع ۔۔۔انسانیت کا منشور


 تقریبا  23  سال کی شدید ترین مشکلات صبر آزما حالات، اور ناقابل تصور مصائب  کے بعد حضور  صلی اللہ علیہ  وسلم کے صبر و

 استقلال  اور  اولوالعزمی کے نتیجے میں ہر قسم کے سیاسی ، معاشرتی اور معاشی ظلم و استحصال سے پاک عدل و احسان پر  مبنی ایک

 ایسا ماحول ، ایسا معاشرہ قائم ہو گیا ، جو پوری تاریک انسانیت میں مثالی حیثیت رکھتا  تھا۔ایک ایسی ریاست وجود میں  آگئی جو

 دس سال کے انتہائی مختصر عرصے میں عرب کی وسعتوں پر چھا گئی اور اس میں رہنے والے باشندے دین و دنیا کی  برکتوں سے 

 بہرہ ور ہونے لگے۔



 اس کے ساتھ ہی وہ وقت بھی آگیا کہ دینِ حق غالب ہوا  ۔ اسلام کا بول بالا ہوا  اور اسلامی معاش، اسلامی تہذیب و تمدن اور

 اسلامی ریاست کی تشکیل و تعمیر مکمل ہوئی ۔ باطل قوتیں مغلوب ہوئیں اور سید المرسلین محبوب رب العالمین کا مقدس مشن

 بھی پورا ہوا ۔


بالا آخر وہ منزل آگئی جبکہ ہادی و رہبر سید و سر در پیغمبر ﷺ نے حجۃ الوداع کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تک کا عظیم

 الشان سفر ذی قعدہ ، ذی الحجہ ۱۰ ہجری مطابق مارچ ۶۳۲ء میں اختیار فرمایا ۔ یہی آپ ﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا اور اسی

 فروری، مارچ   حج کے دوران آپ نے وہ مشہور خطبہ ارشاد فرمایا جو نہ صرف یہ کہ تاریخ رسالت و نبوت میں بلکہ تاریخ انسانی

 میں بھی انقلاب آفریں حیثیت رکھتا ہے ۔ جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے زبان زد خاص و عام ہے لیکن اسے بجا طور پر ایک

 حقیقی خطبہ انقلاب کہا جا سکتا ہے۔


رحمت عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے آخری حج کے موقع عرفات و منی میں عظیم الشان خطبے ارشاد فرمائے جو قیامت

 تک آنے والی نسل انسانی کے لئے عظیم منشور و دستور ہیں۔ چنانچہ 9 ذوالحجہ کو میدان عرفات میں  آپ ﷺ نے  جو خطبہ

 ارشاد فرمایا، صدقہ جاریہ کی نیت سے  اس کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔


 اللہ پاک کی حمد وثناء کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ”لوگو! میری بات غور سے سنو ۔ میرا خیال کہ اس سال کے بعد

 اس جگہ پر تم سے نہ مل سکوں گا  اور نہ شاید اس سال کے بعد حج کر سکوں ۔ لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو ایک

 مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے بہت سے قبیلے اور خاندان بنا دیئے ہیں  تا کہ تم پہچانے جا سکو۔ یعنی باہم ایک

 دوسرے کو شناخت کر سکو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے۔

 

 کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری نہیں ہے اور نہ کسی کالے کو گورےپراور گورے کو کالے پر

 فضیلت اور برتری ۔ صرف پر ہیز گاری کی بنیاد پر ہے۔ تم سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے

 پیدا کئے گئے ہیں۔


 خبر دار خون یا مال کا ہر وہ دعوی جس کے لوگ مدعی ہیں وہ میرے قدموں تلے ہیں۔ ( میں اسے باطل قرار دیتا ہوں ) مگر

 بیت اللہ کی نگرانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت حسب دستور ملے گی۔


اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: "اے گروہ ِقریش ،قیامت کے دن ایسا نہ ہو کہ تم دنیا کا بوجھ اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہوئے

 آو اور لوگ آخرت کا سامان لے کر آئیں ۔ یاد رکھوا اگر ایسا ہوا تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا۔


خبردار! زمانہ جاہلیت  کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون ( خواہ وہ کسی کے

 بھی ہوں ) سب معاف ہیں ۔ (اب فرقین میں سے کوئی اس کا بدلہ نہ لے گا ) میں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے  ہی

 خاندان کا ایک خون جو ربیع ابن حارث کے بیٹے کا ہے معاف کرتا ہوں ۔ 

(واقعہ یہ تھا کہ عامر بن ربیع نے بنو سعد میں سے کسی دودھ پلانے والی کو طلب کیا تھا۔ جسے ہرمل نے قتل کر ڈالا تھا۔ )


دور جاہلیت کا ہر سود معاف ہے ،اس قانون کی ابتداء بھی میں اپنی طرف سے کرتا ہوں  اور اپنے  محترم چچا حضرت عباس کا سود

 معاف کرتا ہوں ۔ ان کا سود سب کا سب معاف ہے۔


لوگو! تمہارے خون ( جانیں ) تمہارے اموال اور تمہاری عزت و آبرو قیامت تک ایک دوسرے پر حرام ہیں ۔ جس طرح

 تمہارے اس دن ، اس مہینہ اور اس شہر کی حرمت واجب ہے اور تم سب عنقریب اپنے پروردگار سے جاملو گے۔ جہاں تم

 سے تمہارے اعمال کا محاسبہ ہو گا۔


 اے لوگو! تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق

 ہے کہ تمہارے بستر پر کسی ایسے آدمی کو نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہیں کرتے۔ نیز ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ کھلی بے حیاتی کا

 کوئی کام نہ کریں ۔ لیکن اگر وہ کریں تو تمہارے رب نے تمہیں اجازت دی ہے کہ ان کے سونے کی جگہ اپنے سے الگ کر

 دو۔ (اگر اس سے بھی باز نہ آئیں تو پھر تمہیں اجازت ہے کہ ایسی ہلکی مار مارو جس سے بدن پر نشان نہ پڑیں۔ 

اگر وہ اپنی نازیبا حرکتوں سے باز آ جائیں تو حسب دستور ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے۔ خبر دار کسی عورت کے لئے جائز

 نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دے۔ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کے ہمیشہ

 پابند رہو۔ کیونکہ وہ تمہاری نگرانی میں ہیں اور اس حیثیت سے نہیں کہ اپنے معاملات خود چلا سکیں ۔ عورتوں کے معاملہ میں

 اللہ سے ڈرتے رہو۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعے انہیں جائز و حلال کیا

 ہے۔


لوگو! اللہ تعالیٰ نے ( میراث کا قانون نافذ کر کے ) ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لئے اب کسی وارث کے حق میں

 وصیت جائز و نافذ نہیں ۔ بچے کا نسب اس مرد سے ہوگا  جس کی وہ بیوی ہے۔ جس نے بدکاری کی اس کے لئے سزا ہے۔ بچہ

 اس کا نہیں کہلائے گا اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔ جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یا

 کسی غلام نے اپنے کو کسی اور مالک کی طرف منسوب کیا اس پر خدا کی لعنت ہے۔


 قرض ادا کیا جائے گا عاریت واپس کی جائے گی۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔ خبردار جرم کرنے وال خود اپنے جرم کا ذمہ دار

 ہے۔ باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا ذمہ دار باپ نہیں ۔ کسی شخص کے لئے کسی بھائی کی چیز لینا جائز

 لینا نہیں۔ البتہ اس صورت میں جائز ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ دے۔ پس تم لوگ اپنے اوپر ظلم و زیادتی نہ کرو۔


لوگو! خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے

 بھائی بھائی ہیں۔ تمہارے غلام تمہارے غلام ہیں۔ تم جو کچھ خود کھاتے ہو انہیں بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو انہیں بھی

 پہناؤ۔


خبردار! میرے بعد گمراہ یا کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو اس پر

 لازم ہے کہ وہ امانت والے کو ٹھیک ٹھیک طریقہ سے لوٹا دے۔ اگر کوئی ٹکٹا ( ناک کٹا ) اور سیاہ فام حبشی تمہارا امیر بنا دیا

 جائے اور وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے۔


اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے۔ میں تمہارے اندر ایک نعمت چھوڑے جا رہا ہوں

  اگر تم مضبوطی سے اسے تھامے رہو گے تو گمراہ نہ ہوگے اور وہ نعمت کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور میری سنت (حدیث) ہے۔


لوگو! اب شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ اس سرزمین (عرب) پر اس کی پرستش کی جائے۔ لیکن عبادات کے علاوہ

 دوسرے معاملات میں اپنے پست افعال کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا۔ تم اپنے دین کو

 اس کے (شر) سے بچا کر رکھنا۔


خبردار! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔ پانچ وقت کی نمازوں کی پابندی کرو ۔ ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی

 خوش دلی کے ساتھ زکوۃ ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر ( بیت اللہ ) کا طواف کرتے رہو۔ اپنے امراء کے حکم کی پیروی کرو تو

 اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔


اے لوگو! نئی زمانہ کفر کی زیادتی کا سبب ہے۔ اس کے ذریعے کفار گمراہ ہوتے ہیں۔ وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کر لیتے

 اور دوسرے سال انہیں کو حرام قرار دے لیتے تھےتا کہ اس طرح حرام مہینوں کی گنتی پوری کریں۔ لیکن اب زمانہ اپنی ابتدائی

 حالت پر لوٹ آیا ہے۔ جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہیں ۔

 جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مہینے مسلسل ہیں ( ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم ) اور ایک ماہ رجب ہے جو جمادی

 الثانی اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔


 خبردار! جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میری باتوں کو ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ کیونکہ بہت سے لوگ جن

 کو میرا پیغام پہنچا وہ ان لوگوں سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں گے جو اس قت سننے والے ہیں۔ تم لوگوں سے میرے

 متعلق بھی پوچھا جائے گا۔ بتاؤ تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟

 حاضرین نے بیک زبان ہو کر عرض کیا ۔ 

ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے امانت کو پوری طرح ادا کر دیا ۔ اللہ کا پیغام (ہم تک اور لوگوں تک پہنچا دیا اور نصیحت کر"

" دی۔


پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ اللهم اشهد 

اے اللہ تو گواہ رہنا ..... اے اللہ تو گواہ رہنا ...... اے اللہ تو گواہ رہنا۔ 


آپ نے اپنی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر فرمایا۔ اے اللہ تو گواہ رہنا ...... اے اللہ تو گواہ رہنا۔ 


مزید پڑھیں


غزوہ تبوک کا واقعہ