غزوہ حنین کا واقعہ

Battle of Hunain


حنین  ایک وادی کا نام ہے۔ یہ طائف سے مکہ کی جانب تین میل کی مسافت پر واقع ہے۔ غزوہ حنین   کا وا قعہ فتح مکہ کے بعد

 ہوا ۔ اس غزوہ کا نام غزوہ اوطاس بھی ہے۔


 غزوہ حنین   قبیلہ ہوازن کے خلاف لڑا گیا جو قریش کی طرح ایک طاقتور قبیلہ تھا۔ اس قبیلہ کا نوجوان سردار مالک بن عوف نصری  تھا۔ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے ان کے ساتھ قبیلہ ثقیف اور دیگر قبائل بھی شامل ہو گئے ۔

اس جنگ کے لیے مالک بن عوف نے بنو جشم کے درید بن صمہ سے مشاورت کی اور راہنمائی لی کیونکہ وہ ان میں نہایت

 صائب  الرائے ، زیرک اور دانشور سمجھا جاتا تھا۔ ایسی مہمات میں اس سے خصوصی گائیڈنس لی جاتی تھی۔

 


جنگ کی ابتدا اس موقع پر مسلمانوں نے نہیں کی بلکہ ہوازن نے کی ۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمانوں کے حملہ آور ہونے سے قبل

 ہم ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ گھبرائے ہوئے تھے کہ قریش جیسا قبیلہ مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہو گیا ہے اور مکہ فتح ہو

 گیا ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ مسلمانوں کا اگلا ہدف ہم ہوں۔ لہذا مسلمانوں سے پہلے ہم ہی ان پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ 

 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب ان کی تیاریوں کی خبر پہنچی تو آپ نے عبد اللہ بن ابی سلمی   کو ان کے بارے میں معلومات کے لیے بھیجا ۔   معلومات حاصل ہو جانے کے بعد آپ 6  شوال ۸ ہجری   کو بارہ ہزار کا لشکر لے  کر نکلے، جن میں سے دو ہزار اہل مکہ تھے۔


 اس غزوہ میں مشرکین صرف چار ہزار تھے اور مسلمانوں کا ایک جم غفیر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر آپ نے

 صفوان بن امیہ سے جو مشرک تھا ،جنگ کے لیے زرہیں اور اسلحہ ادھار لیا۔ مسلمانوں نے جب اپنے لشکر کو کثیر دیکھا تو انہیں

 اپنی تعداد بھلی لگی۔ اس سے پہلے کسی بھی غزوہ کے موقع پر ان کی اس قدر فوج نہ تھی ۔ وہ کثرت تعداد کی بنا پر کہنے لگے

 لَنْ نُعْلَبَ الْيَوْمَ مِنْ قِلَّةٍ

آج ہم قلت تعداد کی بنا پر شکست سے دو چار نہ ہوں گے۔


 نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے قول کی تائید نہ فرمائی بلکہ ان کے برعکس اظہار خیال کیا، اور بے زاری ظاہر کی ۔ قرآن

 پاک نے  مسلمانوں کی کیفیت کا یوں تذکرہ کیا ہے: ان اعجبتكم كثرَتُكُمْ ) (التوبه)


 " جب تمہیں تمھاری کثرت نے عجب (فخر) میں جلا کر دیا ۔"


 یہ کثرت پر گھمنڈ مسلمانوں کے لیے مفید ثابت نہ ہوا۔ قرآن پاک میں یوں بیان ہوا ہے

 فلم تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ

 "پھر وہ (کثرت) تمھارے کچھ کام بھی نہ آئی، اور زمین اپنی پوری کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی ۔ "


 غزوہ بدر میں شیطان نے مشرکین کو کثرت کے دھوکہ میں ڈال دیا جب اس نے ان سے کہا تھا

 " آج کے دن لوگوں میں سے کوئی تم غالب نہیں آسکتا اور میں تمھارا ہمسایا ہوں "


لیکن دنیا نے دیکھا کہ مشرکین کثیر ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہوئے اور شیطان ان کے کسی کام نہ آیا۔ اب یہاں اہل

 ایمان سے فرمایا کہ کثرت تعداد تمہارے کام نہ آئی، اور زمین پوری کشادگی کے با وجود تم پر تنگ ہو گئی۔ یعنی تمہیں چھپنے کے

 لیے بھی جگہ نہیں مل رہی تھی۔


 مسلمان جب وادی میں داخل ہوئے تو  فجر سے تھوڑی دیر پہلے صبح  کا وقت تھا۔ ابھی اندھیرا تھا، اس اندھیرے سے فائدہ

 اٹھاتے ہوئے دشمن کی طرف سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ یکبارگی حملے کا سبق ور ید بن صمد نے ہوازن کو دیا تھا۔

 مسلمان اس اچانک حملے سے گھبرا گئے۔ان کے قدم پھسل گئے اور وہ ادھر ادھر چلے گئے۔صرف ایک سو افراد نبی کریم صلی اللہ

 علیہ وسلم  کے پاس ٹھہرے رہے، جن میں سے خاص طور پر اہل بیت کے افراد تھے۔ جیسے فضل بن عباس عباس بن عبد

 المطلب حضرت علی اور دیگر لوگ۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر  بھی قائم رہے۔

  اس نازک مرحلے میں جہاد میں شامل خواتین نے بھی  میدان نہ چھوڑا، جیسے ام سلیم ۔  بہر حال لشکر کی اکثریت منتشر ہو

 گئی۔


 اس نازک مرحلہ پر ان لوگوں کی زبان سے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، نہایت دلخراش با تیں بھی سنی گئیں۔ قربان جائیں

رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  پر کہ آپ ان حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ مسلمانوں کو دشمن کی طرف سے جو زک اٹھانی

 پڑی، یہ اختیار  کردہ پالیسی کا نتیجہ نہیں تھی، ایسا وسوسہ بھی دل میں نہیں آنا چاہیے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر جنگی حکمت

 عملی ختم ہے۔  آپ سے بڑھ  کر کسی کو جنگی مہارت حاصل نہیں ہے، کیونکہ آپ ایک تجربہ کار کمانڈر تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ

 وقتی اور عارضی ہزیمت سے  دو چار کر کے مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اپنی ذات اور اپنے اسباب پر بھروسا نہیں کرنا

 چاہیے، بلکہ ایک مسلمان کی نگاہ  صرف اللہ کی ذات پر ہو۔



:اس موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت قابل مثال ہے۔ آپ نے دوبارہ صحابہ کو جمع کیا ۔ آپ فرمارہے تھے

"انا النبي لا كذب انا ابن عبد المطلب"

:آپ نے یہ بھی فرمایا

" انا رسول الله / انا محمد بن عبدالله"

 اس سے لوگوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ عباس بن عبد المطلب نے لوگوں کو بلایا  کیونکہ ان کی آواز نہایت بلند تھی۔ وہ لوگوں کو

 تاریخی واقعات کی یاد دلا کر بلا رہے تھے۔ انہوں نے صلح حدیبیہ کی یاد دلا کر کہا يا اصحاب الشجرة ، اسی طرح انہوں نے کہایا معشر

 المهاجرين ، يا معشر الانصار - اسی طرح دوسرے مواقع اور القابات کو یاد کر کے پکارا  تا کہ لوگوں میں جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا

 ہو۔ اس طرح لوگ آپ کے ارد گرد دوبارہ جمع ہونا شروع ہو گئے ۔


 آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی: اللَّهُمَّ انْزِلُ نَصْرَكَ "اے اللہ اپنی مدد بھیج ۔ آپ نے کفار کی طرف مٹی پھینکی ۔ اب 

جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں نے نہایت جم کر لڑائی کی۔ جب جنگ عروج پر تھی اور گھمسان کا رن پڑا تو آپ نے فرمایا

( الان حمى الوطيس)  

اب جنگ کا تنور گرم ہوا ہے ۔ "

 ہو سکتا آپ نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب فرشتوں کا نزول ہوا ہو۔ یہ اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کی

 مدد کی ۔ یہ مدد اس طرح ہوئی کہ اللہ نے آپ اور اہل ایمان پر سکینت اتاری اور ایسے لشکر اتارے جو نظر نہیں آرہے

 تھے۔ اس نصرت الہی سے کفار ہزیمت سے دوچار ہوئے۔  ارشاد خداوندی   ہے

ترجمہ:  " تب اللہ نے اپنی تسکین اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل کی اور وہ لشکر اتارے جن کو تم نہیں دیکھ رہے تھے اور ان

 کو جو کافر تھے عذاب دیا اور یہی کافروں کی سزا ہے۔"(لتوبہ،26)


یہ سکینت اور جنود ہی تھے جنہوں نے کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا، کامیابی کا سبب لشکر کا زیادہ ہونا نہ تھا۔ سکینت دلوں

 کے  اطمینان کا نام ہے۔ مصائب اور مشکلات میں اللہ تعالی اپنے بندوں کا حوصلہ بڑھاتا اور ان سے گھبراہٹ دور کر دیتا ہے

 جس  سے وہ پر وقار اور تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ مشکل حالات میں اطمینان کا حاصل ہونا ، اللہ کی خاص عنایت ہوتی ہے۔

 یہاں خاص مسکینیت کا ذکر ہو رہا ہے۔ مطلق سکیت تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کو حاصل تھی ۔


  جنگ میں سب سے اہم چیز دلی  اطمینان ہوتا ہے جو جنگ میں فتح کا سبب ہوتا ہے۔ جنور سے مراد ملائکہ کا نزول ہے۔ فرشتوں

 کا ایک لشکر نہیں بلکہ کئی لشکر  میدان میں اترے جو مسلمانوں کی نظروں سے پوشیدہ تھے۔ 


اس میں ایک بحث ہے کہ کیا فرشتوں نے عملا لڑائی میں حصہ لیا یا وہ صرف کافروں کے دلوں میں رعب ڈالنے کے لیے تھے، اس

 بارے میں اختلاف ہے۔ بہر حال فرشتوں کے نزول سے مسلمانوں کو تقویت پہنچی اور ثابت قدمی حاصل ہوئی۔ بدر اور حنین

 میں سات سال کا فرق ہے، دونوں میں فرشتوں کا نزول ہوا۔


جنگ حنین میں حضرت خالد بن ولیڈ کے ہاتھوں ایک عورت قتل ہوئی ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی حیرت ہوئی اور آپ

 نے پوچھا یہ کیا ہوا ۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت خالد کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے۔ آپ  نے حضرت خالد کو پیغام بھجوایا کہ میری

 طرف سے منع کیا گیا تھا کہ کسی بچے کسی عورت اور کسی غلام کو ہر گز قتل  نہ کیا جائے۔


اس غزوہ میں شیماء بنت حارث بن عبد العزی مسلمانوں کی قید میں آئی تو گرفتاری کے موقع پر اس نے  کہا

میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی رضاعت میں بہن ہوں۔ لیکن مسلمانوں نے اس کی بات کو سچا نہ مانا۔ جب اسے رسول اللہ

 کے پاس لایا گیا تو اس نے بتایا کہ میں آپ کی دودھ شریک بہن ہوں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی نشانی پوچھی

 تو شیماء نے اپنی نشانی فوری بتا دی ( یہ اس دور کی بات ہے جب آپ حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں بھیجے گئے) 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے ۔ آپ نے اپنی چادر بچھائی اور ان سے بڑے احترام سے پیش آئے۔ پھر اسے

 اختیار دیا چاہے تو ہمارے پاس ٹھہر جائے اور اس صورت میں اُسے بڑے احترام اور محبت کی یقین دہانی کرائی اور چاہے تو

 اپنی قوم کے پاس لوٹ جائے۔ اس نے اپنی قوم کے پاس جانے کو پسند کیا۔ آپ نے اسے بڑے وقار سے سامان دے کر

 اس کی قوم کی طرف رخصت کر دیا۔


 بنو سعد کہتے ہیں کہ آپ نے شیماء کو ایک غلام عنایت فرمایا جومکحول کے نام سے پکارا جاتا اور ایک کنیز ۔ شیماء نے ان دونوں

 کی آپس میں شادی کر دی۔ 

ایک روایت میں ہے کہ شیماء اسلام میں داخل ہو گئیں ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خدمت  کے لیے غلام ، ایک کنیز

 اور دیگر سامان عنایت فرمایا اور آپ نے اس کا نام حذافہ رکھا ۔ شیماءاس جنگ میں اکیلی گرفتار نہیں  ہوئی تھی بلکہ بہت سی

 خواتین قید ہوئیں ۔

 مالک بن عوف نصری کودرید نے سمجھایا بھی تھا کہ خواتین وغیرہ کو میدان جنگ  میں نہ جھونکیں ، اس  سے رسوائی ہو سکتی ہے

 لیکن اس نے دُریدکی اس بات کو نظر انداز کر دیا۔ بالآخر دُریدکی بات سچ ہوئی۔  خواتین کو ساتھ لانے  سے ان مشرکین کا بہت

 نقصان ہوا۔


ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو نہایت عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ جنگ جیسے مشکل وقت

 میں بھی اخلاقیات کا دامن تھامنے کی تاکید ہے۔ مسلمان کفار سے جہاد جاری رکھیں لیکن انہیں کسی مرحلے میں ایسا اقدام

 نہیں اٹھانا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں کی بدنما تصویر پیش کرے۔ جہاد تو جاری رہنے والا عمل ہے۔ اخلاقیات اور جہاد کے

 رک جانے سے اسلام کی پذیرائی میں فرق پڑ جاتا ہے۔ جہاد کی حیثیت دین میں وہی ہے جو جسم میں خون کی ہے۔


اس جنگ میں مسلمانوں   کی طرف سے بڑے حوصلے کا مظاہرہ ہوا ۔ انہوں نے قید میں آئے ہوئے لوگوں کو آزادی دی۔ اس

 وسیع النظری  کو دیکھ کر بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے ۔ ہوازن کا سردار مالک بن عوف نصری بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی

 اعلیٰ ظرفی اور بلند حوصلگی دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔


  اللہ تعالی نے جس طرح میدان بدر میں ، احزاب میں، بنو نضیر اور بنو قینقاع کے اخراج میں، بنو قریظہ کو عبرت ناک سزا دینے

 میں، حدیبیہ، خیبر اور فتح مکہ کے مواقع پر مسلمانوں کی مدد کی ، اسی طرح حنین میں بھی مدد کی ۔

 اللہ تعالی فرماتے ہیں 

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حنين (التوبه (25)

 الله نے تمھاری اکثر موقعوں پر کفار کے مقابلہ میں مدد کی اور حنین کے دن بھی ۔ 


اللہ تعالٰی اہل ایمان کی کیوں نہ مدد کرے، اس کا تو اہل ایمان سے وعدہ ہے کہ وہ ان کی مدد کرے گا جو اس کے کلمہ کی سر

 بلندی کے لیے جد و جہد کریں گے۔ جو شخص اللہ کی راہ میں نکلتاہے ، اللہ کی حمایت و نصرت ضرور اس کے شامل حال ہوتی ہے۔  فتح کا خزانہ صرف اللہ کے پاس ہے ۔ وہ جسے چاہے فتح دلا دے ۔ وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کی رضا کے لئے اُس  کے دین کا علم بلند کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی جس سے اپنا کام لے، وہ بہت خوش نصیب ہوتا ہے، اور پھر جہاد جیسا کام، یہ تو  بہت بڑی بات ہے ۔ 


غزوہ حنین کے واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کی  اگرچہ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی ہمیں حاصل ضرور کرنی چاہیے، مگر یقین یہ ہونا چاہیے کہ  فتح اور شکست فوج کی کثرت تعداد اور  جدید  ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے وابستہ ہے۔ 



یہ بھی پڑھیں