غزوہ تبوک کا واقعہ

Battle of Tabuk


غزوہ تبوک کا واقعہ


تبوک ملک شام میں ایک مقام ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح  مکہ اور غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپ کو خبر ہوئی کہ

 روم کا بادشاہ ہر قل مدینہ منورہ پر فوج بھیجنا چاہتا ہے اور وہ فوج تبوک کے مقام پر جمع کی جائے گی۔ قبل اس کے کہ وہ حملہ

 کرے آپ نے خود ہی مقابلہ کے لئے سفر کا ارادہ کیا  اور مسلمانوں میں اعلان کر دیا۔ 


غزوہ تبوک کا سبب


عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو

 اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کر لیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں

 نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک شام میں بہت بڑی فوج جمع کر دی ہےاور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ

 قبائل تخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔


 ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چر چاتھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں

 کو غلط سمجھ کر نظر انداز کر دینے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ت نے بھی فوج کی تیاری

 کا حکم دے دیا۔


تبوک کو روانگی


حضور صلی اللہ علیہ وسلم  تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم ونسق چلانے کے لئے حضرت علی

 رضی اللہ عنہ  کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا 

چونکہ یہ زمانہ بہت گرمی کا تھا اور مسلمانوں کے پاس سامان بہت کم تھا، سفر دور دراز کا تھا اس لئے اس جہاد میں جانا بڑ ا

 ہمت کا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جہاد میں شرکت کے لئے مسلمانوں کو سورہ تو بہ میں اس طرح ترغیب دلائی  اور فرمایا۔


ترجمہ: اے ایمان والو تم لوگوں کو کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو تو زمین کو لگے جاتے ہو، کیا

 تم نے آخرت کے عوض دنیاوی زندگی پر قناعت کرلی سو دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلہ میں بہت تھوڑا ہے۔

( سورة  التوبہ  ۱۱ آیت (۳۸)


جہادکے لئے مسلمانوں کو ترغیب دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی آیات سورہ توبہ میں  بیان فرمائی ہیں

: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں


ترجمة: نکل پڑو (خواہ ) تھوڑے سامان سے (خواہ ) زیادہ سامان سے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہ 

تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم یقین رکھتے ہو تو دیر مت کرو۔(سورہ التوبہ پ ۱۰ آیت (۲) 


جو منافق تھے اور دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے وہ اتنی دور جہاد میں جانے سے بہانے کرنے لگے اور رخصت مانگنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے  ان کی پول کھول دی اور اسی سورۃ میں فرمایا۔



ترجمہ: اگر کچھ ہاتھ لگتے ، مال ملنے والا ہوتا اور سفر بھی معمولی ہوتا تو یہ منافق  ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیتے لیکن

 ان کو تو مسافت ہی دور دراز  معلوم ہونے لگی اور ابھی خدا کی قسمیں کھا جائیں گے کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو

 تمہارے ساتھ چلتے، یہ لوگ جھوٹ بول کر اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔ (سوره

 التوبہ ۱۰ آیت ۴۲)



حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک کے قریب پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالی کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور

 سورج  بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو  ہاتھ نہ لگائے۔


 رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو اس میں ایک باریک  پانی کی دھار   بہ رہی تھی۔ آپ نے اس میں سے تھوڑا سا

 پانی منگو ا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دور لوگوں نے جب اس

 پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس  ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے

 ثیر اب ہو گئے۔ 

حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا  نہیں چلا۔


واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبر دی کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک

 میں آرہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت  چھاگئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل

 سکےاور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی


 رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس  دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف وجوانب میں اسلامی لشکر کا جلال دکھا کر

اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے ۔ 


:یہ بھی پڑھیں


غزوہ حنین کا واقعہ