پیغمبرِ اسلام کے عسکری معرکے



پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  کے عسکری معرکے


غزوه احد ۳ ہجری


پسِ منظر


غزوہ بدر میں قریش کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ شکست ان کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ شکست کا خیال

 کسی طرح ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ وہ انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ پورے عرب میں ان کی شہرت خاک میں مل گئی

 تھی اور وہ بدلہ لینے کے لیے مرے جا رہے تھے، بری طرح پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مکے میں اعلان کر دیا


"بدر کے مقتولین پر نہ تو کوئی روئے نہ ہی ان پر مرثیہ خوانی کرے۔“

 جن کے عزیز اس جنگ میں قتل ہوئے تھے، ان کی طرف سے کہا گیا

"ہم مسلمانوں سے اس شکست کا بدلہ لے کر رہیں گے۔“


 اب با قاعدہ جنگ کی تیاری شروع ہوگئی ۔ جنگ کے لیے فنڈ قائم کیا گیا۔ ابو سفیان جس تجارتی قافلے کو بچا کر لے آئے تھے

 اس کا مکمل منافع اس جنگی فنڈ میں جمع کرا دیا۔


غزوہ بدر کے بعد کافروں سے چند چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اور جھڑ ہیں ہوئیں۔ پھر جنگ بدر کے ایک سال بعد جنگ احد ہوئی۔

کافروں کو بدر میں شکست کا رنج تھا وہ اس کا بدلہ لینے کے لئے ایک سال بعد مدینہ منورہ پر چڑھ آئے ، ہمارے پیارے نبی

 صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے مشورہ کیا ، طے پایا کہ مدینہ منورہ سے باہر جا کر مقابلہ کیا جائے ، ایک ہزار مسلمانوں کا لشکر

 روانہ ہوا، جب کہ کافروں کا لشکر تین ہزار تھا۔

 راستے میں عبد اللہ ابن ابی منافقوں کا سردار اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر واپس ہو گیا اور بہانا بنا دیا۔ آپ کے پاس سات

 سو جانباز مسلمان رہ گئے ،آپ نے کوہ احد پہنچ کر پچاس تیرا اندازوں کو پہاڑ کے اہم مقامات پرتعینات کردیا اور سختی سے  تاکید

 کر دی کہ   اپنی جگہ پر ڈٹے رہنا اور حکم دیا کہ میری اجازت کے  بغیر تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا ، خواہ ہمیں شکست ہو یا فتح ۔


جب جنگ شروع ہوئی تو اول مسلمانوں کو فتح ہوئی  اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر وہ مسلمان جن کو پہاڑ

 کی اہم جگہوں پر کھڑا کیا گیا تھا دس آدمیوں کے سوا باقی سب اپنی جگہوں کو چھوڑ کر آگئے ۔پہاڑ کی اہم جگہوں کی طرف سے

 جن کو مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم کے برعکس چھوڑ دیا تھا کافروں   نے حملہ کر دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے

 پیرا کھڑ گئے اور ستر مسلمان جنگ میں شہید ہو گئے جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا  حضرت حمزہ بھی شامل ہیں۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر میں  زخم آئے جس سے یہ افواہ پھیل گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔پھر  اللہ

 تعالیٰ نے  مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کیا، مسلمان پھر جم کر لڑے اور کا فر میدان احد چھوڑ کر چلے گئے۔


  قرآن پاک میں سورہ العمران میں جنگِ احد کا ذکر موجود ہے


ترجمہ: اور جب کہ آپ صبح کے وقت گھر سے چلے مسلمانوں کو لڑنے کے تھے اور ان ر اللہ تعالیٰ سب سن رہے تھے، سب

 جان رہے لئے مقامات پر جمار ہے۔ تھے جب تم میں دو جماعتوں نے دل میں خیال کیا کہ ہمت ہار دیں اور اللہ تعالیٰ تو ان

 دونوں جماعتوں کا مددگار تھا اور بس مسلمانوں کو اللہ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ( سورة آل عمران پ ۴ آیت (۱۲)


 پھر آگے چل کر فرماتے ہیں۔

ترجمہ: اور ست نہ ہو او غم نہ کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ ( سوره آل عمران پ ۴ آیت ۱۳۹)


مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ 

ترجمہ : اگر تم کو زخم پہنچ جائے تو اس قوم کو بھی ایسا ہی زخم پہنچا  ہے۔( سوره آل عمران پ ۴ آیت ۱۴۰)


پھر اللہ تعالی مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

ترجمہ : اور یقینا اللہ تعالی نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا تھا جس وقت تم ان کفار کو بحکم خداوندی قتل کر رہے تھے یہاں تک

 کہ تم خود ہی کمزور ہو گئے اور باہم حکم میں اختلاف کرنے لگے اور تم کہنے پر نہ چلے بعد اس کے کہ تم کو تمہارے دل کی بات

 دکھلا دی تھی۔( سوره آل عمران پ ۳ آیت ۱۵۲)


مسلمانوں کو کافروں کے مقابلہ میں شکست اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ نبی صلی

 اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو چند جگہوں پر بٹھا دیا تھا اور تاکید کر دی تھی کہ وہاں سے نہ ہٹیں لیکن سوائےچند کے 

 بقیہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے جس کی  وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔


 اللہ تعالی اس بات کو اس طرح فرماتے ہیں۔

ترجمہ: اور جب تمہاری ایسی ہار ہوئی جس سے دو حصے تم جیت چکے تھے تو کیا تم ( یوں ) کہتے ہو کہ یہ کدھر سے ہوئی فرمادیجیے

 کہ تمہاری طرف سے ہوئی بیشک اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے۔ ( سورہ عمران: پاره ۴، آیت: ۱۶۵)


غزوة احد سے ہم کو دو باتوں کا سبق ملتا ہے۔

اول: مسلمانوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے کہ فتح اور شکست صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ 

تعداد یا ہتھیاروں کی زیادتی فتح  کی نشانی نہیں،ہاں ہتھیار زیادہ سے زیادہ تیار رکھنے  چاہیں کہ یہ  اللہ کا حکم ہے لیکن یقین صرف

 یہی ہونا چاہئے کہ فتح اللہ تعالیٰ دیں گے۔

دوم:جو حکم  ہمارا امیر یا کمانڈر انچیف دے اس پرسختی سے قائم رہنا چاہئے چاہے جان چلی جائے چوں کہ یہ بھی اللہ کا حکم

 ہے لڑائی میں فتح حاصل کرنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے ۔


غزوہ بنی نضیر


غزوہ بنی نضیر سن ۳ ہجری  میں ہوا، جس کا سبب یہ ہوا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ ہجرت فرما کر تشریف فرما ہوئے

 تو یہودیوں کے دو قبیلوں نے جو مدینہ طیبہ کے باہر رہتے تھے آپ سے عہد کیا کہ  ہم باہر موافق رہیں گے اور آپ کے لئے کوئی

 برائی نہیں کرینگے۔ جب آپ اس معاملہ پر گفتگو کے لئے ان کے پاس گئے اور ان سے اس معاملہ میں گفتگو کی ۔ وہ لوگ آپ

 کو ایک دیوار کے نیچے بٹھلا کر مشورہ کرنے لگے کہ دیوار پر سے ایک پتھر لڑھکا کر آپ کو قتل کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو

 وحی سے اطلاع ہو گئی ، آپ اٹھ کر مدینہ تشریف لے گئے۔

آپ نے کہلا بھیجا کہ تم نے اپنے عہد کو توڑا ہےیا تو دس دن کے اندر نکل جاؤ ورنہ لڑائی ہوگی ، وہ لڑائی کے لئے تیار ہوئے ۔

آپ ان پر لشکر لے آئے اور ان کے حلقہ کو گھیر لیا آخر وہ تنگ ہو کر نکل جانے پر راضی ہوئے۔


سورہ حشر میں یہی قصہ ہے اس میں سے چند آیتیں ہم نقل کرتے ہیں۔


ترجمہ: اللہ پاک کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہ زبردست حکمت والا ہے وہی ہے جس

 نے کفار اہل کتاب کو ان کے گھروں سے پہلی بار اکٹھا کر کے نکال دیا، تمہارا گمان بھی نہ تھا کہ وہ بھی اپنے گھروں سے نکلیں

 گے اور خود انھوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ سے بچالیں گے سو ان پر اللہ کا (عتاب) ایسی جگہ سے پہنچا

 کہ ان کو خیال بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں رعب ڈالدیا ، کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں

 سے اجاڑ رہے تھے سوائے عقل مندو! ( اس حالت کو دیکھ کر ) عبرت حاصل کرو۔(سورةالحشرب ۲۸ آیت ۱)

 


پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

ترجمہ: یہ اس سبب سے ہیکہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ

 تعالی اسکو سخت سزا دینے والا ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو اور ذہن نشین کر لو کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول

 کی مخالفت کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ذلیل کرتے ہیں اور آخرت میں اس کے لئے دوزخ کا عذاب ہے۔( سورۃ

 الحشرب ۲۸ آیت ۴) 


غزوہ بدر ثانی 


جنگ احد سے واپس جاتے ہوئے کافر کہہ گئے تھے کہ سال آئندہ بدر پر پھر لڑائی ہوگی، جب وہ زمانہ قریب ہوا تو کافروں کو بدر

 تک جانے کی ہمت نہ ہوئی انھوں نے یہ سوچا کہ ایسی تجویز کرنی چاہئے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بدر نہ

 جائیں تا کہ ہم کو شرمندگی نہ ہو چناں چہ انھوں نے ایک جاسوس کو مدینہ منورہ بھیجا کہ مسلمانوں میں جا کر یہ خبر پھیلائیں کہ

 کافروں نے فوج جمع کی ہے۔

مسلمان تو صرف اللہ سے ڈرتا ہے وہ کافروں کی زیادتی سے تو نہیں ڈرتا ، انھوں نے سن کر کہا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، ہماری مدد

 کے لئے اللہ کافی ہے۔


 آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ڈیڑھ ہزار آدمیوں کو ساتھ لے کر بدر تشریف لے گئے اور چند روز قیام کیا، لیکن وہاں کوئی کافر مقابلے

 پر نہیں آیا۔مسلمانوں نے وہاں تجارت میں خوب نفع حاصل کیا اور خوش و خرم واپس لوٹ آئے۔


  دومۃ الجندل سن ۵ ہجری

ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ دمشق کے قریب کچھ کفار جمع ہو کر مدینہ منورہ پر چڑھنا چاہتے ہیں، آپ ایک

 ہزار آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے ، وہ خبر سن کر بھاگ گئے آپ چند روز وہاں رہ کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے ، اس کو

 دومۃ الجندل کہتے ہیں۔


اسی سال غزوۂ نبی مصطلق بھی ہوا لیکن یہاں پر بھی کافر مقابلے پر نہیں آئے اور اپنا سامان اور اہل و عیال چھوڑ کر بھاگ

 گئے۔


غزوہ خندق سن ۵ ہجری


غزوہ بدر اور غزوہ احد کے بعد کفار کی اسلام دشمنی میں مزید شدت پیدا ہوتی چلی گئی اور غزوہ احد میں مسلمانوں کے شدید

 نقصان کے بعد ان کی آتش انتقام اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ مسلمانوں کو صفہ ہستی سے یکسر مٹانے پر تل گئے۔

اس پس منظر میں کفار مکہ نے عرب کے مختلف قبائل سے اتحاد کیا اور دوسری جانب مدینہ سے جلا وطن یہودیوں نے مکہ مکرمہ

 میں غلاف کعبہ پکڑ کر مکہ کے سردار ابوسفیان سے سیدنا حضور علیہ الصلٰواۃ والسلام کی عداوت میں عہد و پیمان کیا۔ اور قریش مکہ 

 عرب قبائل اور یہودیوں پر مشتمل دس ہزار افراد کا ٹڈی دل لشکر سلطنت اسلام کو ختم کرنے کے ناپاک ارادے سےجمع ہوا۔

 ابوسفیان سردار تھا اس لشکر میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ شامل تھے۔


حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کو جب دشمنان اسلام کی روانگی اور حملہ کی اطلاعات ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں صحابہ

 کرام سے مشورہ فرمایا۔حضرت سلمان فارسیؓ نے ایران میں رائج طریقہ جنگ پر خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔ حضور نے اس

 مشورہ کو پسند فرمایا اور میدان جنگ کی مناسبت سے خندق کا نقشہ ترتیب دیا۔


مدینہ منورہ تین اطراف سے دشوار گزار پہاڑیوں ، عمارات اور باغات سے گھرا ہوا تھا اور صرف شمال کی طرف سے کھلا تھا۔

 چنانچہ اس رخ پر نیم دائرہ کی شکل میں خندق کے کئی نشان لگایا۔ یہ خندق پندرہ فٹ گہری پندرہ فٹ چوڑی اور ساڑھے

 تین میل لمبی تھی۔


ان دنوں شدید سردی کا موسم تھا۔ سیدنا حضور علیہ الصلٰواۃ والسلام نے بنفس نفیس اس کھدائی میں حصہ لیا ۔ صحابہ کرام خندق

 سے مٹی اپنے کندھوں پر رکھ کر باہر نکالتے۔ سنگلاخ زمین اور سردی کے موسم میں بھوک اور محنت و مشقت پر سیدنا حضور علیہ

 الصلٰواۃ والسلام نے رجزیہ اشعار پڑھ کر صحابہ کرام کو حوصلہ دیا اور ان کے جذبہ کی ستائش فرمائی۔


خندق کی کھدائی میں ایک بہت بڑی اور مضبوط چٹان نکل آئی جو کسی صورت میں نہ ٹوٹتی تھی ۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ

 صحابہ کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس پہنچے اور صورتحال بیان فرمائی۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس چٹان پر

 بسم اللّٰہ کہہ کر ضرب لگائی تو ایک تہائی چٹان ریت کی مانند ریزہ ریزہ ہو گئی۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےے فرمایا

اللّٰہ اکبر ! مجھے شام کی کنجیاں عطا کی گئیں۔ 

"خدا کی قسم ! میں نے بلاشبہ شام کے سرخ محلات کو اس ضرب میں دیکھا"


اس کے بعد دوسری ضرب لگائی تو چٹان کا مزید ایک تہائی حصہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔

آپ نے فرمایا

 اللّٰہ اکبر! مجھے فارس کی کنجیاں عطا کی گئیں۔ 


"خدا کی قسم ! میں نے اس گھڑی مدائن کے سفید کنگرے دیکھے ہیں "

اس کے بعد تیسری ضرب لگائی تو بقیہ چٹان بھی ریزہ ریزہ ہو گئ


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللّٰہ اکبر ! مجھے یمن کی کنجیاں مرحمت فرمائی گئیں۔  

"خدا کی قسم ! میں اس وقت جہاں کھڑا ہوں یہاں سے صنعا کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں"


خندق کی کھدائی 20 روز میں مکمل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سرخ رنگ کا خیمہ لگایا گیا۔ پہاڑی کے اطراف میں خفاظتی چوکیاں بنائی گئیں۔ عورتوں اور بچوں کو محفوظ حویلیوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اسلامی لشکر تین ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ اور ان کے ساتھ صرف 36 گھوڑے تھے۔ سیدنا حضور علیہ الصلٰواۃ والسلام نے مجاہدین کو رستوں میں تقسیم فرما کر خندق کے ساتھ فاصلے پر متعین فرمایا۔ خندق کے اندرونی کنارے پر پتھر جمع کر لئے گئے تاکہ بوقت ضرورت دشمنوں پر مارے جاسکیں۔

ابوسفیان کی قیادت میں کفار مکہ کا لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو عرب کے دیگر وحشی اور درندہ صفت قبائل اور حلیف یہودی بھی

 اس جم غفیر ہو چکے تھے۔ انہوں نے جب مسلمانوں کو کو مدینہ منورہ سے باہر مقابلہ کے لئے نہ پایا تو غیض و غضب میں بپھر

 گئے اور جب ٹڈی دل لشکر نے اپنے اور مسلمانوں کے درمیان حائل وسیع و عریض خندق اور حفاظتی انتظامات دیکھے تو شش و

 پنج اور حزن و ملال میں گرفتار ہو گئے اور ان کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔


دو ہفتہ تک مشرکین جوش و جذبہ کے ساتھ خندق عبور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اکثر نڈر اور جانباز گھوڑ سوار خندق

 پھلانگنے کی جسارت میں گر کر ہلاک ہو گئے۔ اور اگر کوئی خندق عبور کر گیا تو مجاہدین نے اس کا کام تمام کر دیا۔ مسلمان تیر

 اندازوں نے انہیں خندق سے دور رکھا۔ کفار مکہ کے مشہور جرنیلوں کو اپنی اپنی مقررہ باری پر حتمی المقدور کوشش کے باوجود

 خندق عبور کرنے میں ناکامی ہوئی۔ اور تائید ایزوی سے سیدنا حضور علیہ الصلٰواۃ والسلام کی حکمت و بصیرت نے مخالفین کی قوت کو خاک میں ملا دیا۔

ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی وہاں سے مشہور اور بہادر عرب پہلوان عمرو چند نوجوانوں کے ساتھ خندق عبور کرنے میں

 کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کو مقابلے کے لئے للکارا۔ عمرو ایک ہزار سوار کے برابر بہادر اور شجاع سمجھا جاتا تھا۔حضرت علیؓ 

 شیر خدا نے ایک وار میں اس کے دو ٹکڑے کر کے نعرہ تکبیر بلند کیا تو اس کے باقی ساتھی بھی فرار ہو گئے۔ اس روز تمام دن

 یہ سلسلہ جاری رہا اور مسلمان ہر جانب سے مشرکین کا مقابلہ کرتے رہے اس دوران نماز عصر اور مغرب قضا ہویئں جنہں بعد 

میں ادا کیا گیا۔


آ خر کار دو ہفتوں کی کوشش کے بعد بھی جب کفارِ مکہ کے ہاتھ کچھ نہ  آیا تو ان کی ہمت جواب  دے گی۔ ایک رات شدید

 آندھی چلی جس نے کفار کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا اور ان کی روشنیاں بجھا دیں۔ شدید گردو غبار سے فضا تاریک ہو گئی۔

 مشرکین نے فرار ہونے کو ترجیح دی اور مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔


یہ مسلمانوں کی شاندار فتح تھی جس میں خندق کھودنے کی تدبیر بڑی کام آئی۔ مشرکین بہت دیر تک اس جنگ کے اثرات سے

 سنبھل نہ سکے۔



مزید پڑھیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشے


حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن


جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی


معراج ِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ


ہجرتِ مدینہ اور بدر کا معرکہ