فتح مکہ جس نے انسانی تاریخ بدل دی


fatah makkah story in urdu


عظیم الشان فتح  ۔۔۔۔فتح   مکہ کا واقعہ 


جب سرکار دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں صلح فرمائی اور عہد نامہ لکھا گیا، اس سے دونوں فریق مطمئن ہو گئے لیکن

 بنو بکر نے  خلاف ورزی کرتے ہوئے رات میں بنو خزاعہ  پر حملہ کر دیا، بنوبکر کے ساتھ قریش بھی اس قتل و غارت گرمی میں

 ہمنوا ہو  گئے۔ ان کے ذہن میں یہ رہا کہ سرکار دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر نہ ہوگی لیکن صبح ہونے پر انہیں

 احساس ہوا کہ ہم نے یہ کیا کیا ؟ ہم نے تو اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے با قاعدہ معاہدہ کیا تھا اور خود ہی توڑ ڈالا ، لیکن

 اب پچھتانے سے کیا فائدہ ؟ 


بنوخزاعہ کا ایک آدمی وفد لیکر دربار نبوت میں حاضر ہوا اور پورا واقعہ بتلایا۔ آنحضرت نے نے تمام تفصیل سننے کے   بعد ان کی

 اعانت ومدد  کا وعدہ فر ما یا ، جس پر یہ  وفد چلا گیا۔ دربار نبوت سے حکم ملا کہ ایک قاصد روانہ کرو، جسے یہ پیغام دو کہ قریش

 مکہ سے اس کا جواب لائے۔

بنی خزامہ کے جو افراد قتل ہوئے ، ان کی دیت ادا کریں۔  -

جو عہد کیا تھا اسے توڑ دیں۔ -

 معاہدہ حدیبیہ  ختم کردیں۔ -

جب در بار نبوت کا قاصد یہ پیغام لیکر پہنچا تو جوش میں قریش مکہ نے تیسری شق منظور کر لی کہ فسخ   صلح حدیبیہ  منظور ہے۔

جب ذرا جوش کم ہوا اور ہوش آیا تو بڑی شرمندگی ہوئی اور ابوسفیان (اس وقت مسلمان نہ تھے) کو فورا روانہ کیا۔


 ابو سفیان بارگاہ رسالت میں پہنچے اور مدعا بیان کیا۔ لیکن لسانِ  نبوت سے جواب نہیں ملا تو دوڑے سید ناصدیق اکبر کی

 خدمت میں ، وہاں بھلا کسے پذیرائی ہو سکتی تھی۔ جب در بار صدیقی سے محرومی ملی ، پھر دوڑ ے  فاروق اعظم کی خدمت میں 

 وہاں سے بھی  جواب ملا۔ پھر شیر خدا سید نا علی مرتضی کے کا شانہ مبارک پر حاضری دی اور حضرت علی و حضرت فاطمہ سے

 درخواست کی لیکن سب جگہ سے ایک ہی جواب تھا۔ مجبوراً ابوسفیان نا کام ہوئے۔


 اس کے بعد در نبوت سے حکم ہوا کہ خاموشی سےمخفی  طور پر مکہ مکرمہ کی تیاری شروع کر دیں ۔ آس پاس کے قبائل کو بھی مطلع کر دیں لیکن اس کا اعلان نہ ہو ،  نہ کسی  کو خبر ہو۔

اس حکم مبارک کے ملتے ہی اللہ کے عظیم  انسانوں کی یہ جماعت تیار ہو کر فتح مکہ کے ارادے سے نکل کھڑی ہوئی۔ محدثین کرام

 نے ان دین کے سپاہیوں کی تعداد تقریبا 10 ہزار بتلائی ہے۔


اس وقت دھرتی پر سب سے مقدس و مبارک افراد کا یہ عظیم الشان سمندر پیدل اعلائے کلمۃ اللہ اور حق تعالی کی رضا مندی

 کیلئے دیوانہ وار سر کر رہا تھا، ابھی یہ سفر جاری تھا کہ ایک جگہ لشکر اسلام کا پڑاؤ ہوا، خیمے  نصب ہوئے، حضرت عباس سواری

 پر چکر لگا کر پہرہ دے رہے تھے کہ ابو سفیان نظر آگئے ۔پرانی دوستی تھی جا پکڑ اور فرمایا کہ اسلام لے آؤ اور اپنے ہمراہ

 سواری پر بٹھالیا۔

 اتفا ق سے   شیرِ خدا  سیدنا عمر فاروق کی نظر پڑ گئی ،نظر پڑتے ہی اللہ کا شیر جھپٹ پڑا کہ دشمن توحید و رسالت  ہاتھ آگیا لیکن

 حضرت عباس نے دوست کو بچاتے ہوئے دربار نبوت میں لاکھڑا کیا۔


 پیچھےاللہ کا شیر تلوار ہاتھ میں لئے تیار ہے کہ  زبان نبوت سے حکم ملے اور وہ ابو سفیان کی گردن اڑادے  لیکن رحمت مجسم  کا

 حکم ہوا ۔

" عباس ! اسے اپنے خیمہ میں لے  جاؤ۔"


صبح  ہوئی تو سیدنا عباس ابو سفیان کو لیکر دربار نبوت میں حاضر ہوئے۔ سرکار دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیمات اسلام

 پیش  کیں اور اس طرح اسلام کا دشمن ابوسفیان حق پرست مؤمن اور صحابی رسول کے اعزاز سے نوازا گیا اور قیامت تک آنے

 والے ہر مسلمان کیلئے واجب الاحترام ہو گیا۔


  پھر اس جلیل القدر صحابی نے آخر دم تک اسلام کیلئے وہ عظیم خدمات پیش کیں جن  کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مرد جلیل 

 کے بیٹے جلیل القدر صحابی کاتب وحی ، صحابی ابن صحابی  سید نا حضرت امیر  معاویہ  ہیں۔



   مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد سید نا ابو سفیان اجازت نامہ لیکر مکہ مکرمہ آئے اور سب کو اعلان حق سنایا اور کلمہ طیبہ کی

 طرف دعوت دی  اور برملا  بتا دیا کہ تم میں سے کسی کی جرات نہیں ہے کہ سید الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کر  سکے، ان کا

 لشکر ایسا ہے جس سے تمہارا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔لہذا عافیت اسی میں ہے کہ ایمان لے آؤ۔ اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ لوگ

 سراسیمہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ کسی نے حضرت ابوسفیان کے گھر پنا ہ لی، کسی نے حرم میں   پناہ    لی ۔



 دنیا کی معزز ترین ہستی مع اپنے دس ہزار نفوس قدسیہ کے جب 10 رمضان المبارک 8 ہجری کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئی تو

 انتہائی تواضع ، خاکساری کے ساتھ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ سورۃ الفتح زبان نبوت پر جاری تھی ۔ آپ   صلی اللہ علیہ

 وسلم اور صحابہ کرام کے کسی عمل سے کسی قسم کا  تکبر،  بڑائی یا  شاہانہ پن نظر  نہیں  آ رہا تھا  بلکہ عاجزی وانکساری، خاکساری

 اور اللہ کی مشیت کے آثار چیروں پر ظاہر ہو ر ہے تھے۔ 


اللہ کے محبوب  کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ گردن مبارک جھکی جارہی تھی اور فرمارہے تھے کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ پھر

 اذاجاء  نصر اللہ کی تلاوت فرمائی۔

 حضور  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو وہ منظر بھی یاد تھا، جب انہیں اس سرزمین مکہ پر  مصائب و تکالیف کا سامنا تھا اور

 کس قدر بے بسی  کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی تھی۔



آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمنوں سے حسن

 سلوک، عفو و درگزر اور مثالی مذہبی رواداری کا سب سے بڑا اظہار فتح مکہ کے موقع پر ہوا۔ 10 رمضان المبارک 8 ہجری بمطابق

 جنوری 63  آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں اپنے دشمنوں کے سامنے تھے، ایسے دشمن جنہوں نے ہر موقع پر آپ 

 صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے ، اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔اس دن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم الرحمہ

 قرار دیا۔

 فتح مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خون کے پیاسوں کو یہ کہ کر چھوڑ دیا  کہ تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم

 سب آزاد ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا : تک باقی رہے گی۔


 :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا

جو کوئی ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے۔

جو کوئی خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے اسے قتل نہ کیا جائے۔

جو کوئی اپنے گھر کے اندر بیٹھا ر ہے اسے قتل نہ کیا جائے۔

جو کوئی ابو سفیان کے گھر پناہ لے اسے قتل نہ کیا جائے۔

جو کوئی حکیم بن حزام کے گھر پناہ لے اسے قتل نہ کیا جائے۔

بھاگ جانے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے۔

 زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔


حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا  کہ کوئی قتال میں پہل نہ کرے، اگر کوئی مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے تو

 قتال کرنا ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو فتح   کی خوشی میں مست ہو جاتا لیکن آپ نے فتح کی خوشی میں آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی ، اس

 کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف فرمایا۔


 اس وقت خانہ کعبہ میں 360 بت تھے۔ آپ بتوں کی طرف بڑھے  اور  "جاء الحق و زھق الباطل" ( حق آگیا اور باطل  چلا گیا)

 پڑھ کر عصائے مبارک سے اشارہ فرماتے  اور بت منہ کے بل  گرتے  جاتے۔

 پھر کعبتہ اللہ کی کنجی لی اور کھلوایا، تصاویر دیکھ کر مٹانے کا حکم فرمایا۔ آب زم زم سے دھلوایا، پھر نماز ادا  فرمائی، ایک بار پھر

 سے مکہ کی سرزمین نعرہ تکبیر کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھی۔



 اس وقت آپ کے ہمراہ سید نا بلال و سید نا اسامہ بن زید تھے، جب باہر تشریف لائے تو ایک مخلوق جمع تھی ۔ آپ  صلی اللہ

 علیہ وسلم نے ایسا فصیح  وبلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو آج تک محد ثین نے ذخیرہ احادیث میں محفوظ کر رکھا ہے۔ آج وہ سب مجرم

 موجود تھے، جنہوں نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ساتھ ذلت آمیز برتا ؤ کیا تھا۔سب لرزہ بر اندام تھے

 کہ آج مسلمان نہ جانے کیا برتاؤ کریں، انحضرت   صلی اللہ علیہ وسلم   نہ جانے کیا سزا تجویز فرمائیں۔ لیکن آپ تو  رحمتہ

 للعالمین تھے، اس لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا جو قیامت تک مشعل راہ ہے۔


"تم پر آج کوئی عتاب اور گرفت نہیں ہے، جاو تم سب آزاد ہو۔"


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قتل کا منصوبہ بنانے والوں ، اپنے چچا   کا  کلیجہ چبانے والوں سب ہی کو معافی دے دی۔آپ

 صلی اللہ علیہ وسلم کے معافی کے اعلان نے اپنے لشکر و سپاہ کو ہر قسم کے خون خرابے سے روک دیا اور اپنے اللہ کے سامنے

 بندگی واطاعت اور عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح در اصل سیاسی دنیا کی فتح تھی۔ آپ صلی اللہ

 علیہ وسلم کے عفو و درگزر نے ظالمانہ نظام کی جڑ کو اکھاڑ پھینکا۔ ایسے وقت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر ڈھائے

 جانے والے ہر ظلم کا حساب لے سکتے تھے، معافی کا اعلان کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔


آپ صلی اللہ علیہ وسل کا یہ فیصلہ انسانی تاریخ میں عفو درگزر کا واحد فیصلہ تھا ، یہ انسانیت کی عظیم ترین فتح کا دن تھا۔ فتح

 مکہ کے تاریخی موقع پر انسانی حقوق کے اولین علم بردار محسن انسانیت نے مفتوحین کے لیے ان کی توقعات کے برخلاف آزادی کا

 پروانہ جاری کر کے انسانیت پر احسان عظیم کیا۔


سیرت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم میں شبلی نعمانی لکھتے ہیں: " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ سب دشمن تھے جو اسلام کو

 مٹانے میں سب کے پیش رو تھے، وہ بھی تھے جو راستے میں کانٹے بچھاتے تھے، وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ

 وسلم کی ایڑیوں کو لہولہان کر دیتے تھے، وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی آگ پر لٹا کر ان کے سینوں پر آتش مہر لگایا کرتے

 تھے۔ رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ:

 تم کو کچھ معلوم ہے میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟ 


  وہ لوگ جو ظالم بھی تھے اور مزاج شناس بھی، پکار اٹھے کہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم شریف بھائی اور  شریف برادر زادے ہیں ۔

 ارشاد ہوا 


"تم پر کچھ الزام نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔ "


فتح مکہ کا سب سے اہم ترین پہلو انسانیت کا احترام ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نہ کی کو ذلیل کیا ، نہ کسی کی

 جان و مال سے تعرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے احترام انسانیت کی ایسی مثال قائم کی، جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں

 نہیں ملتی۔


 : مزید پڑھیں


پیغمبرِ اسلام کے عسکری معرکے



صلح حدیبیہ کا واقعہ