ہجرتِ مدینہ اور بدر کا معرکہ


prophet migration to madiana



حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی  مدینہ کی طرف حجرت


جب کفار مکہ بہت تکالیف دینے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ہجرت کی اجازت عطا فرمائی، اور اصحاب 

نے خفیہ روانہ ہونا شروع کیا۔


پسِ منظر


 ایک روز کافروں کے سرداروں نے خانہ کعبہ کے قریب ایک مکان میں مشورہ کیا اور سب کی یہ رائے قرار پائی کہ قبیلہ قریش میں

 سے ایک ایک آدمی منتخب ہو اور سب جمع ہو کر رات کو محمد کے مکان پر جا کر  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل  کردیں۔ محمد

 صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سب سے مقابلہ نہیں کر سکتے ، اس لئے خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔


 اللہ تعالی نے آپ کو اس مشورہ سے آگاہ کر دیا اور حکم دیا کہ مدینہ ہجرت کر جائیں۔رات کے آخری پہر جب  آپ  گھر میں تھے

 کہ کفار نے آپ کا مکان  گھیر ے میں لےلیا۔ آپ امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کر کے گھر سے نکل گئے اور خدا کی قدرت سے

 کسی کو نظر نہ آئے اور حضرت ابو بکر صدیق کو ساتھ لیا اور غار ثور میں  ٹھہر گے۔

 

کافروں نے جب آپ کو گھر میں نہ دیکھا تو تلاش کرتے کرتے غار تک  پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غار میں داخل ہونے

 کے بعد مکڑی نے غار کے منھ پر جالا بنا دیا اور ایک کبوتر کے جوڑے نے آکر غار میں انڈے دے دیئے۔ جب کفار نے دیکھا تو

 کہنے لگے کہ اگر کوئی آدمی اس میں جاتا تو یہ مکڑی کا جالا ٹوٹ جاتا اور کبوتر اس غار میں نہ ٹھہرتا ، اسی غار کے متعلق قرآن

 پاک میں اس طرح آیا ہے۔


ترجمہ : اگر تم لوگ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی مددنہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد اس وقت کرے گا جب کہ آپ کو

 کافروں نے جلا وطن کر دیا جب کہ دو آدمیوں میں ایک آپ تھے، جس وقت دونوں غار میں تھے جب کہ آپ ہمدردی سے

 فرمارہے تھے کہ غم نہ کرو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (سوره التوبة  آیت ۴۰)


آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن اس غار میں رہے، پھر آپ مدینہ شریف تشریف لے گئے، وہاں کے لوگوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا ۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں شوق میں نظم پڑھتی تھیں۔

"طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ۔وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٍ"

  وداع کی گھاٹیوں سے ہم پرچاند طلوع کر آیا،دعا کرنے  والے جب تک دعا کریں ہم پر شکر واجب ہے۔


غزوہ بدر  کا معرکہ

 رمضان کے مہینے میں   بدر کے مقام پر مسلمانوں اور قریشِ مکہ کے درمیان جو پہلی جنگ لڑی گئ اسے جنگِ بد ر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔


:پسِ منظر


رجب ۲ھ میں آپ صلی الہ علیہ وسلم نےعبداللہ بن جحش کو بارہ آدمیوں کی مختصر جماعت کے ساتھ قریش کی نقل و حرکت کا پتہ

 چلانے کے لیے نخلہ بھیجا۔  اتفاق سے وہاں اُن کی مڈ بھیٹر قریش کے ایک دستہ سے ہوئی۔ اس موقع پر قریش کا ایک آدمی قتل

 ہوا اور دو گرفتار کر کے مدینہ لائے گئے۔


  اس جھڑپ میں جو لوگ قتل اور گرفتار ہوئے تھے وہ معززین قریش میں سے تھے۔ ان میں عمرو بن الحضرمی بھی شامل تھا، اس

 لیے  قریش جو پہلے ہی مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے اس واقعہ سے اور بھی مشتعل ہو گئے اور اپنے آدمیوں کا بدلہ  لینے پر تل گئے ۔

 

 اسی دوران مکہ میں یہ خبر اڑ گئی کہ مسلمان قریش کا کاروان تجارت لوٹنے آ رہے ہیں۔ اس خبر پر قریش بڑے زور و شور کے

 ساتھ حملہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ مہاجرین تن ، من ، دھن  سے جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار تھے مگر آپ انصار کی مرضی معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے قبیلہ خزرج کے رئیس  حضرت سعد بن عبادہ نے انصار کے نمائندے کی حیثیت سے عرض کیا 

 میرے آقا، جہاں آپ تشریف لے جائیں گے ہم آپ  کے ساتھ ہیں، جس سے چاہیں تعلق منقطع کر لیجئے جس سے چاہیں قائم 

 رکھیں، ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ رہیں  گے، اگر آپ ہم سے کچھ لینا چاہیں یا ہم کو دینا چاہیں، ہم دونوں کے لیے حاضر

 ہیں ، آپ ہمارا جس قدر مال قبول فرما  ئیں گے اس سے ہم کو زیادہ خوشی ہوگی ۔ آپ سے ہم کو سمندر میں کودنے کا حکم

 دیں گے تو ہم کود پڑیں گے۔ 

 

حضرت مقداد نے کہا: ہم موسی کی امت کی طرح نہیں ہیں، جس نے موسی سے کہا تھا کہ تم اور تمہار اب جا کر لڑو ہم یہاں

 بیٹھیں گے۔ بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گئے۔ یہ جان دار  تقریر سن کر آپ صلی الہ علیہ

 وسلم   کا چہرہ مبارک و فود مسرت سے چمک اٹھا اور آپ لال رمضان ۲ ھ بمطابق ۱۲۳ ء میں تین سو تیرہ مسلمانوں کو لے کر 

 جن  میں ساٹھ مہاجرین اور باقی انصار تھے ) مدینہ سے روانہ ہوئے ۔ اس دوران قریش کا لشکر جس میں ایک ہزار پیدل سپاہ

 اور سو  سوار تھے ، مدینہ کے قریب بدر پہنچ کر مناسب موقعوں پر قبضہ کر چکا تھا۔ آنحضرت علی بھی اپنی مختصری فوج کے ساتھ

 میدان  بدر پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے۔ 


جنگ بدر میں مسلمانوں اور کفار قریش کی فوجوں میں کوئی مناسبت نہیں تھی کیوں کہ مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ

 جب کہ کفار کی تعداد تین گنا زیادہ تھی۔ مسلمان نہتے اور بے سرو سامان تھے، کافروں کے پاس اسلحے کی فراوانی تھی ، تلوار

 گھوڑے اور دیگر ساز و سامان کی بھی کافروں کے پاس کمی ب تھی۔ مسلمانوں کے پاس صرف اللہ کا سہارا تھا، جس سے وہ

 گڑ گڑا کر درد کی فریاد کر رہے تھے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ا یک خیمے میں نہایت الحاح زاری سے مصروف دعا تھے۔


یہ بڑے امتحان و آزمائش کا وقت تھا۔ جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو خود ان کے بزرگ اور اُن کے قلب و جگر کے

 ٹکڑے تلواروں کے سامنے تھے لیکن مسلمانوں کے لئے اسلام کی محبت تمام رشتوں پر غالب آچکی تھی۔ چنانچہ میدان جنگ

 میں حضرت ابوبکر کی تلوار اپنے لخت جگر عبدالرحمن کے مقابلے کے لئے بے نیام ہوئی ۔ حضرت عمرؓ کی تلوار اپنے ماموں کے

 خون سے رنگین ہوئی ۔ حضرت حذیفہ کو اپنے والد عقبہ کے مقابلہ پر آنا پڑا۔


 اللہ نے مسلمانوں کی غیبی مددفرمائی  جس کا ذکر  سورہ انفال میں موجود ہے ارشاد ہوا: " اُس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے  تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا ، جو لگا تار چلے آئیں گے اور اللہ تعالی نے یہ امداد بعض اس لئے کی کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہو جائے اور مددصرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا  ہے۔


 غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مختلف طریقے سے مدد فرمائی، فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ کفار کی گردنوں پر ماریں اور اُن

 کی پور پور توڑ دیں تاکہ اُن کے ہاتھ تلوار چلانے کے اور پیر بھاگنے کے قابل نہ رہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک  مٹھی بھر کر کافروں کی طرف پھینکی ، جسے ایک تو اللہ تعالی نے کافروں کے منہ اور آنکھوں تک پہنچا دیا اوردوسرے اس میں  یہ تاثیر پیدا فرمادی کہ اس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہیں کچھ بھائی نہ دیتا تھا۔ یہ معجزہ بھی اُس وقت اللہ تعالی کی مدد سے ظاہر ہوا اور مسلمانوں کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوا۔


  اس غزوہ میں مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔ اس جنگ کا  ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا کیوں کہ اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی۔ قرآن کے بقول : بیا ایمان و کفر میں امتیاز کا اصل بن گئی تا  کہ جو ایمان پر زندہ ہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو وہ  بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیوں کہ اس پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسلمان حق پر ہیں اور مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کاراستہ ہے۔


بعض روایات میں ہے کہ ابو جہل نے مکہ سے روانگی کے وقت کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ خداوندا دونوں فریق میں سے جو

 اعلیٰ واکرم ہوا سے فتح دے، آخر جو مانگا تھا سامنے آگیا۔ ایک طرف تو وہ خود انہتر (۲۹) سرداروں کے ساتھ بری طرح مارا گیا،

 قریش کے ستر سردار گرفتار ہوئے ۔ اس طرح خدا نے اُن کی جڑ کاٹ دی۔ بدر کے مقام پر وہ متوقع مفتوح بن کر جام و سید

 لنڈ ھانا چاہتے تھے مگر انہیں موت کا پیالہ پینا پڑا جشن طرب اور محفل سرور و نشاط تو منعقد نہ کر سکے ہاں نوحہ و ماتم کی صفیں

 بدر سے مکہ تک بچھ گئیں۔ جو مال ابو جہل تفاخر و نمائش پر خرچ کرنا چاہتا تھا وہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بنا۔


  قرآن پاک میں سورہ انفال میں غزوہ بد ر کا ذکر بیان گیا ہے، اس میں سے چند آیتیں یہ ہیں۔


 ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا ہو جائے گا اور تم چاہتے تھے

 کہ جو قافلہ بے شوکت (یعنی بے ہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے اور

 کافروں کی جڑ کاٹ دے۔(سورۃ انفال پ ۹ آیت ۷ )


ترجمہ: تاکہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کر دے گو مشرک نا خوش ہی ہوں جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس

 نے تمہاری دعا قبول کر لی ، ہم ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہیں گے تمہاری مدد کریں گے۔ (سوره

 انفال: پاره ۹ آیت : ۸)


ترجمہ: جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ہم مومنوں کو تسلی دو کہ ثابت قدم رہیں۔

(سوره انفال پ ۹ آیت (۱۲) 


 جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو سخت عذاب دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی پھر مسلمانوں

 کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

 ترجمہ: اے اہل ایمان ! جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا اور جو شخص امروز پیٹھ پھیرے

 گا سوائے اسکے کہ لڑائی کی کوئی حکمت ہو یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے وہ مستی ہے باقی اور جو ایسا کریگا وہ خدا کے غضب میں

 گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔( سوره الانفال پ ۹ آیت (۱۵)

 

اس جنگ میں جہاں بڑے اپنا جوش اور ولولہ دکھا رہے تھے  وہیں جوان اور بچے بھی ان سے کسی طرح پیچھے نہ تھے ۔ بچوں

 نے محاذ جنگ پر بڑوں ہی کی طرح کارنامے سر انجام دیے ۔ یہ نوجوان اپنے بڑوں کے شانہ بہ شانہ وسط میدان پہنچے اور ایک

 ایسا کارنامہ انجام م دیا دیا جو جو شاید شاید بڑ بڑوں کے  بھی نا ممکن ہوتا ۔ 


 ابو جہل تلواروں کے سائے میں تیروں اور نیزوں کی باڑھ میں تھا ، اس کے ساتھی کہتے جاتے تھے کہ دیکھو ابوالحکم (ابو جہل کا

 لقب) کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ اتنے پرے کے باوجود دو نوجوان اس تک پہنچنے اور اسے جہنم واصل کرنے میں کام یاب ہو گئے 


اس جنگ میں شریک ا ایک صحابی عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ کے روز صف کے اندر تھا کہ دیکھا دائیں

 اور بائیں دو نوجوان کھڑے ہیں ، ان ، ان کی موجودگی ۔ سے میں بہت حیران ہوا ، اتنے میں ایک نوجوان نے دو سرے سے

 چھپتے ہوئے مجھ سے آہستہ سے پوچھا چا جان ابو جہل کہاں ہے ؟ میں نے کہا کہ تمہیں ابو جہل سے کیا لینا ہے ؟ اس نے کہا کہ

 مجھے معلوم ہوا ہے کہ ابو جہل حضور کو گالیاں دیتا ہے ، اس ذات کی قسم اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو اسے زندہ نہیں چھوڑوں

 گا، خواہ اس میں میری جان ہی چلی جائے۔


 مجھے اس نوجوان کی بات پر تعجب ہوا۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ دوسرے نوجوان نے بھی اسی انداز سے پوچھا۔

 میری نظریں میدان کارزار ہی پر مرکوز تھیں کہ اچانک مجھے  ابو جہل نظر آیا تو میں نے ان نوجوانوں سے مخاطب ہو  کر کہا وہ رہا

 دشمن اسلام  اور تمہارا شکار ۔ یہ دیکھتے ہی ان دونوں نے شیر کی طرح اس پر حملہ کر دیا ، پھر اسے خون میں لت پت چھوڑا

 اور آنحضرت کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر میدان جنگ کا واقعہ بیان کیا ۔

 آپ نے دریافت فرمایا، تم دونوں میں سے کس نے ابو جہل کو قتل کیا ؟ دونوں بہ یک وقت بولے میں نے ۔ آپ نے پھر فرمایا

 اچھا  اپنی تلوار دکھاؤ ۔ دونوں نے تلواریں دکھائیں جن پر خون لگا ہوا تھا ۔ پھر آپ فرمایا واقعی تم دونوں نے ہی اسے جہنم

 رسید کیا ہے ۔


تاریخ اسلام اور کتب احادیث میں دونوں بچوں کا نام معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفرا ہے۔


یہ بھی پڑھیں


معراج ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ