معراج ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ

story of Al-Isra wal Miraj

                                          

  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، بچپن اور پہلی وحی کا احوال  پچھلی دو پوسٹوں میں بیان ہو چکا ہے۔

 سیرت ِ نبویﷺ  سے اپنے دلوں منور کرنے  کے لئے ان پوسٹون کا لنک نیچے دیا گیا ہے۔


پہلی پوسٹ

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن


دوسری پوسٹ

جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت ملی



معراج ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 


اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو بیت المقدس اور آسمانوں کی راتوں رات سیر کرائی جسے معراج کہتے ہیں، قرآن شریف میں ارشاد ہے۔


 ترجمہ: -  شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات ادب

 والی مسجد سے مسجد اقصیٰ   تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھلا دیں اس کو اپنی قدرت کے نمونے وہی سنتاد یکھتا ہے۔  (سورہ بنی اسرائیل، پ۱۵، آیت)


پسِ منظر


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم و ستم کے درمیانی دور سے گزر رہی تھی۔ مکہ مکرمہ کے آخری دور

 میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن کے دوران وفاتِ ابو طالب، وفات حضرت خدیجہ اور شعب ابی طالب کی  سختیوں جیسے

 عظیم صدمات سے دو چار تھے۔ گویا یہ سال ’’عام الحزن‘‘ تھا۔


حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پے در پے صدمات آئے، سفرِ طائف کا واقعہ وہ ہے کہ سن کر پتھروں میں بھی گداز پیدا ہو

 جائے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سےاس دن کی سختی اور شدّت کا تذکرہ ملتا ہے۔


اتنی تکلیف، غم و حزن کے عالم میں جب دل پاش پاش تھا ۔ حوصلہ افزائی اور یقین کی ایک جھلک اس واقعے میں ملتی ہے

 کہ انسانوں کی بد سلوکی اور ایمان نہ لانا جب دل شکستہ کر رہا تھا تو جنوں کی ایک جماعت نے قرآنِ پاک سنا اور دین اسلام

 قبول کیا۔ (الجن 2-1:72)


یہ طائف کے سفر سے واپسی پر وادیٔ نخلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد بھی تھی اور سکونِ قلب کا باعث بھی۔ نبی صلی

 اللہ علیہ وسلم کو مبعوث تو دونوں (انسانوں اور جنوں) کی طرف کیا گیا تھا مگر ایک مخلوق نے دکھ دیا تو دوسری نے دل شاد کر

 دیا۔

 اس تائید الٰہی سے غم و الم اور  مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اک نئی گرم جوشی، چستی اور توانائی

 محسوس کی اور پھر وہ مکہ کی طرف گامزن ہو گئے۔


اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحیم و شفیق ہے۔ وہ مشکل کام میں پیار، حوصلہ بھی دیتا ہے،محبت سے ہاتھ بھی تھامتا ہے۔ دل کو

 سکون بھی عطا کرتا ہے۔ کام کی تکمیل کی خوشخبریاں بھی سناتا ہے۔ نقد انعام بھی فرماتا ہے،محنت کا ثمر بھی دیتا ہے اور اس کا

 یقین بھی دلاتا ہے۔ جیسے بچوں کو ماں مشقت والا کام کروا کر سینے سے لگاتی، پیار کرتی اور راضی ہو جانے کی خوشخبری سناتی

 ہے۔


حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ واپس آ کر افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینا شروع کی اور انسانوں کے اس

 انبوہِ کثیر میں کچھ لوگوں نے بہترین جواب دیا۔ سختیوں کے دور میں یثرب کے چند لوگ اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت

 ہوئے اور یہی کرنیں آفتاب کے طلوع ہونے کی پیش گوئی کر رہی تھیں۔


پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے دور کی محنتوں پہ شاباش دینے اور اگلی منز  ل کے لیے ہمت، حوصلہ

 اور منصوبہ بندی دینے کے لیے اپنے دربار میں بلایا۔


معراج کیسے ہوا؟


معراج کی تفصیل یوں ہے کہ ایک رات جب  آپ سور ہے تھے حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کا سینہ چاک کر

 کے قلب کو آب زمزم سے دھویا اور اس میں ایمان اور حکمت بھر دی آپ کے پاس سفید رنگ کا براق لایا گیا جس پر آپ کو

 سوار کیا گیا ۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کی رکاب پکڑی، راستے میں آپ کو بہت سے عجائبات دکھائے گئے۔ براق کا

 ایک قدم جہاں تک نگاہ جاتی تھی پڑتا تھا۔


 آپ ﷺ   کو بیت المقدس پہنچایا گیا، جہاں مسجد اقصی میں آپ امام بنے اور آپ کے پیچھے تمام انبیاء نے نماز پڑھی، پھر تمام

 انبیاء سے ملاقات کرائی گئی۔ اس کے بعد آسمان کا سفر شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے۔ آپ  ہر

 آسمان پر تشریف لے گئے ، ہر آسمان پر کسی پیغمبر سے ملاقات ہوئی ، پھر آپ کو سدرۃ المنتہی کی طرف بلند کیا گیا۔

یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچے، پھر حضرت جبرئیل ٹھہر گئے۔


 اس کا ذکر  قرآن پاک میں اس طرح آیا ہے

 ترجمہ: - اس نے جبرئیل علیہ السلام کو دوسری بار سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔


 ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے مقام میں کوئی دوست اپنے  دوست  کو چھوڑتا ہے؟

حضرت جبرئیل نے کہا کہ اگر میں اس مقام سے آگے بڑھوں تو نور سے جل جاؤںگا۔ پھر آپ کو نور سے پیوست کر دیا گیا اور ستر

 ہزار حجاب طے کرائے گئے یہاں تک کہ تمام انسانوں اور فرشتوں کی آہٹ قطع ہو گئی ی اور  آپ  ﷺ   عرش عظیم تک پہنچے۔


 اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے لئے تحفے دیئے گئے وہ یہ ہیں۔

پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔-

سورہ بقرہ کا آخری رکوع دیا گیا۔-

جو شخص آپ کی امت میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اس کے گناہ معاف کئے گئے۔-

 اور یہ بھی وعدہ ہوا کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو کرنے نہ پائے تو اس کی ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر نیکی  کو کرلیا تو کم ازکم دس حصے کر کے لکھے جائیں گےاور جو شخص بدی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو وہ بالکل نہ لکھی جائے گی اور اگر اس کو کرلے تو ایک ہی بدی لکھی جائے گی۔


 یہ رفعتیں اور بلندیاں   اللہ پاک کی طرف سےحضورِ اقد سﷺ کے وسیلہ  سے اور معراج کے طفیل تمام امتوں میں سے صرف

 امتِ محمدیہ کو  عطا کی گئیں ہیں۔سبحان اللہ


معراج کے اس تحفہ سے یہی ادراک حاصل کریں گے کہ پیارے نبی محمد ﷺ کو معراج کے سفر پر بلایا گیا، خاطر مدارت کی گئی

 اور اس کا ایک نمونہ بطور تحفہ نماز کی صورت میں امت مسلمہ کو بھی عطا کیا گیا۔ اسی نماز کے بارے میں، اسی تحفہ کی یاد

 دہانی کے بارے میں کتب سیرت میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضور ﷺ آخری وقت میں ’’نماز‘‘ . ’’نماز‘‘ کی تلقین کرتے

 رہے۔


اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل کر دے جو نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تاکہ دنیا و آخرت میں ترقی کی معراج

 حاصل ہو۔آمین


یہ بھی پڑھیں

حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے اور آسمان پر اٹھایا جانا