فتح مبین، صلح حدیبیہ کا واقعہ



Treaty of Hudaibiyah


فتح مبین ..... صلح حد یبیہ  کا واقعہ


حضور اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ سے بچھڑےچھے سال ہو چکے تھے۔ حج کی تمنا آپ اور صحابہ کرام کے

 دلوں میں شدت پکڑتی جارہی تھی۔

 حج ، زمانہ جاہلیت سے ہی عربوں کا قومی شعار تھا۔ دشمن کو بھی اس کی ادائیگی سے نہیں روکا جاتا تھا، گویا مسلمانوں کو بھی بچ

 کرنے کا حق تھا۔ 

چناں چہ رسول کریم    صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ  اور آس پاس کی بستیوں میں حج پر جانے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں 1400 مسلمان آپ کے ساتھ ہو گئے۔ قریش مکہ کی تسلی کے لیے آپ کے حکم پر سب نے مدینہ   سے ہی احرا  م بھی باندھ لیے اور قربانی کے جانور بھی ساتھ لے لیے۔ سوائے نیام کی تلوار سے کوئی  اور ہتھیار  ساتھ نہ لیا اور ذی قعدہ کی چاند رات کو مکہ

 روانہ ہوئے۔ 


ان سب تدابیر کے باوجود قریش مکہ کو حضور نبی کریم    صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ آمد سخت ناگوار گزری، انھوں نے طے کر لیا کہ

 آپ یا دیگر مسلمانوں کو حدود حرم میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور ایک دستہ خالد بن ولید کے قیادت میں بھیج دیا ۔  یہ

 اطلاع رسول پاک کو کوہ  سفان کے مقام پر مل  گئی اور آپ نے  مکے کا عام راستہ چھوڑ کرثنیہ  المرار  کار استہ اختیار کیا اور حدیبیہ

 پہنچ کر قیام فرمایا۔

 

حدیبیہ ، مکہ المکرمہ کے مغرب کی طرف بارہ میل کے فاصلے پر ایک کنواں تھا، اسی کے نام پر آبادی کو بھی حدیبیہ کیا جانے لگا۔

 یہ مکے  کو جدہ سے ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔

 حدیبیہ میں سب سے پہلے تو  بنو خزاعہ  کے سردار بدیل بن ورقا اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاضر ہوئے جن کے ذریعے حضور     صلی

 اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقصد سفر سے قریش مکہ کو مطلع کیا۔ یہ پیغام سن کر قریش نے اپنے ایک سردار عروہ بن مسعود ثقفی کو

 بھیجا جس نے نبی پاک سے انتہائی گستاخی سے بات کی۔ اس پر حضرت ابو بکر اور حضرت مغیرہ بن شعبہ نے عروہ کو سخت تنبہہ

 کی تو عروہ نے مکہ جاکر قریش کو پوری بات بتادی۔ لیکن قریش نے آپ کسی بات پر دھیان نہ دیا۔


 پھر آپ نے خراش بن امیہ خزاعی کو قاصد بناکر قریش کے پاس بھیجا تو قریش اس کے قتل پر آمادہ ہو گئے۔ خراش وہاں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس واپس آئے۔ اب قریش نے ایک اور شرارت کی اور چالیس پچاس آدمی اسلامی لشکر کی طرف روانہ کیے ، تاکہ کوئی صحابی ہاتھ لگ جائے تو گر فتار کیا جاسکے۔


سیرت ابن ہشام کے مطابق ان لوگوں نے مسلمانوں کے قریب پہنچ کر پتھر برسانے شروع کر دیے۔ صحابہ نے انھیں گرفتار کر

 کے حضور نبی کریم    صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پیش کیا  مگر آپ نے انھیں معاف کر دیا۔ آپ نے ایک مرتبہ پھر مفاہمت

 کی کوشش کی اور حضرت عثمان بن عفان کو قاصد  بناکر بھیجا۔

 حضرت عثمان نے قریش مکہ کو حضورا کا پیغام دیا تو وہ بولے :

 اے عثمان ہم محمد اور ان کے ساتھیوں کو تو اجازت نہیں دیں گے البتہ تم چا ہو تو خانہ کعبہ کی زیارت کر سکتے ہو۔ " 

حضرت عثمان نے کہا: "میں حضور کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتا۔"

 اس جواب پر قریش بہت ناراض ہوئے۔ انھوں نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ  کو پکڑ لی۔اادھر مسلمانوں کو یہ اطلاع ملی کہ

 عثمان شہید کر دیے گئے ہیں تو مسلمانوں میں غم و قصے لہردوڑ گئی۔ 


اس موقع پر اللہ کے رسول     صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: " میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب کہ تک مشرکین

" سے عثمان کے خون کا بدلہ نہ لے لوں۔ 


اس کے بعد نبی       صلی اللہ علیہ وسلم   بیول کے درخت کے ساتھ ٹیک  لگا کر بیٹھ گئے اور تمام صحابہ نے قصاص عثمان پر آپ

 کی  بیعت کی جسے قرآن میں" بیت رضوان " کہا گیا۔


 قرآن پاک میں سورہ فتح  اس بیعت  کا ذکر یوں فرمایا   گیا

اللہ مسلمانوں  سے راضی ہوا جب وہ (اے محمد)  آپ کے  ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ پس اللہ تعالی نے ان کے قلوب کا حال  جان لیا ان پر تسلی نازل فرمائی اور انھیں فتح  عطا فرمائی۔


 حضور اکرم سے نے حضرت عثمان کی جانب سے بھی بیعت کی، اپنے بائیں ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر اسے اپنے

 دائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا :  " وہ اللہ اس کے رسول کی حاجت میں گئے ہیں۔


 قریش نے جب اس بیعت کا حال سنا تو اپنے قاصد بھیج کر مفاہمت کی کوشش کی۔ سیرت ابن ہشام کے مطابق انھوں نے

 سہیل بن عمرو عامری کو چند آدمیوں کے ہمراہ آپ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ آپ اس سال واپس چلے

 جائیں ورنہ تمام عرب یہ کہیں گے کہ محمد نے زبر دستی عمرہ کر لیا اور قریش کچھ نہ کر سکے۔ اس  سے ہماری بڑی بد نامی ہوگی۔ 


سہیل نے کچھ تجاویز آپ کی خدمت میں پیش کیں جنھیںآپ نے تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد مان لیا۔ زبانی طے ہونے کے بعد

 اس معاہدے کو تحریری شکل میں لانا تھا جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا۔

 انھوں نے سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جس پر سہیل نے اعتراض کیا۔ حضور  نے سہیل کے کہنے پر حضرت علی

 سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ "باسمائے اللھم " لکھوایا۔

 اس کے بعد حضرت علی نے لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد الرسول اللہ اور سہیل بن عمرو کے مابین طےہوا۔ اس پر بھی

 سہیل بن عمرو کو اعتراض ہوا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، اس لیے آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھیے۔

:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  رضی اللہ سے تبدیلی کرنے کو کہا تو انھوں نے عرض کیا

 "میں یہ الفاظ تمہیں بدل سکتا۔"

 اس پر نبی پاک نے خود محمد الرسول اللہ کے الفاظ مٹا کر محمد بن عبد اللہ لکھوا دیا۔ 


یہ صلح نامہ دس سال کے لیےطے ہواتاکہ لوگ امن سے رہیں اور ایک دوسرے سے تعرض نہ کریں۔

:اس کی چند خاص باتیں یہ تھیں

جو محمد کی ذمے داری میں جانا چاہیے جا سکتا ہے اور جو قریش کے عہد  میں داخل ہونا چاہے، وہ بھی ایسا کر سکے گا۔ ان میں

 سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے گا تو وہ اسے ولی کے پاس واپس بھیج دیں

 گے۔ اس سال محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کو لے کر واپس مدینے چلے جائیں گے اور آئندہ سال مکے میں تین دن

 قیام کریں گے۔ ان کے پاس مسافروں کے ہتھیاروں کے سوا اور کوئی ہتھیار نہ ہو گا ۔ 


صحابہ بہت افسر دو تھے کہ عمرہ کیے بغیر واپس جارہے ہیں۔ انھیں اس بات پر بھی دکھ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو شخص

 اپنے ولی کی اجازت کے بغیر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے گا، اللہ کے رسول اسے اس کے ولی کو لوٹادیں گے۔

 صلح  نامے کے فورا بعد سہیل  بن عمرو کے بیٹے ابو جندل ،جو مسلمان ہو چکے تھے اور قریش مکہ کی قید میں تھے، بھاگ کر حضور

 اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ، مگر رسول اللہ نے معاہدے سے روگردانی نہیں کی اور انھیں واپس کر دیا۔


 صلح نامہ لکھنے جانے کے بعد آپ نے اپنا اونٹ قربان کیا اور سر کے بال منڈوائے۔ صحابہ نے بھی اس عمل کی تقلید کی۔ صلح

 نامے کی ایک شق کے مطابق بنو  خزاعہ جو پہلے ہی حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی طرف مائل تھے ، اس وقت آپ کی حمایت

 میں آگئے اور بنو بکر نے قریش کا دامن تھام لیا۔


 حضور   اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم    نے حدیبیہ میں دس روز قیام فرمایا جس کے بعد مدینے واپس لوٹے۔ اس دوران سورہ فتح

 منز  ل ہوئی جس میں اللہ تعالی نے اس صلح کو " فتح مبین" سے تعبیر کیا۔ سور ہ فتح کے نزول کے بعد صحابہ کا دلی ملال ختم

 ہوا۔ 


تاریخ ابن خلدون میں صلح  حدیبیہ  کے بارے میں لکھا ہے کہ صلح حدیبیہ اپنے نتائج کے اعتبار سے فتح مبین کہلائی۔ اس صلح سے

 پہلے مکہ  اور مدینے کے لوگ ایک دوسرے سے نہ مل سکتے تھے اور نہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اس طرح ہو سکتی تھی جس طرح

 بعد میں ہوئی۔ ملنے جلنے سے لوگوں پر اسلام اور مسلمانوں کے کردار کی سچائی اور نیکی ظاہر ہوئی اور لوگ جوق در جوق اسلام

 میں داخل ہونے لگے اور دو سال میں مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا۔ آس پاس کے علاقوں کے حکمرانوں کو خطوط بھیجے

 گئے جس کی وجہ سے اسلام کا نور عرب سے باہر بھی پھیل گیا۔ 


صلح حدیبیہ کے بعد ابو بصیر عقبہ بن اسید مکے سے بھاگ کر مدینہ پہنچے، لیکن حضور  اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے خیال سے ساحل

 سمندر کے قریب ایک مقام عیص میں مقیم ہو گئے جس کے بعد ستم زدہ مسلمانوں کو ایک ٹھکانا مل گیا اور وہ بھاگ بھاگ کر

 وہاں جمع ہونے لگے۔ بعد میں انھوں نے قریش کے   تجارتی  فلوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور مجبور قریش کو معاہدے کی یہ

 شق ختم کرنی پڑی۔ اس کے بعد تمام مظلوم مسلمان  مکے  سے مدینہ آگئے اور قریش کا تجارتی راستہ کھل گیا۔


 اس دور ان  یہ حکم بھی نازل ہوا کہ نہ کافر عورتیں مسلمانوں کی زوجیت میں رو سکتی ہیں اور نہ مسلمان عور تیں  کافروں کے

 ساتھ۔ اس کے بعد صحابہ نے اپنی ان بیویوں کو طلاق دے دی جو اس وقت تک کفر پر قائم تھیں اور مکے میں مقیم تھیں۔

 عتبہ بن ابی معیط کی بیٹی ام کلثوم جو مسلمان ہو چکی تھیں، ہجرت کر کے مدینے پہنچیں تو ان کے بھائی عمارہ اور ولید نے

 حضور اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم سے انھیں واپس بھیجنے کی درخواست کی تو آپ نے انکار فرمادیا کیوں کہ واپس بھیجنے کی شق صرف

 مردوں کے لیے تھی ، عورتوں کے لیے نہیں۔


 صلح حدیبیہ کو  فتح مبین  قراد دیے جانےکا ایک  پہلو یہ بھی ہے کہ  صلح حدیبیہ    ہی دراصل فتح مکہ کا سبب بنی جس کے باعث پورا

 عرب مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگیا۔


:مزید پڑھیں


جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی

  

معراج   کا  واقعہ