روٹی چور بچے کی کہانی


story of bread thief child


روٹی چور بچے کی کہانی

انصاف کی مثالی کہانی


 ملزم ایک 13 سالہ لڑکا تھا۔ ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔

 مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔


جج نے فردِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا

 "تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟"

 

"بریڈ اور پنیر کا پیکٹ"

 لڑکے نے اعتراف کرلیا۔

 

"کیوں؟"

 

"مجھے ضرورت تھی"

 لڑکے نے مختصر جواب دیا۔

 

"خرید لیتے"

 

"پیسے نہیں تھے"

 

"گھر والوں سے لے لیتے"

 

"گھر پر صرف ماں ہے، بیمار اور بے روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"

 

"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"

 

"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"

 

"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"

 

"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ نہیں کی"

 

جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔

 

چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔

  مجھ سمیت اس چوری کا مجرم ہے۔ ،عدالت میں موجود ہر شخص


  میں یہاں موجود ہر فرد اور خود پر 10 ڈالر جرمانہ عائد کرتا ہوں۔


 دس ڈالر ادا کئے بغیر  کوئی شخص کورٹ سے باہر نہیں جاسکتا۔


 یہ کہہ کر جج نے اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیئے۔

 

اس کے علاوہ میں اسٹور انتظامیہ پر 1000 ڈالر جرمانہ کرتا ہوں کہ اس نے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے

 ہوئے  اسے پولیس کے حوالے کیا۔


 اگر 24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو کورٹ اسٹور سیل کرنے کا حکم دے گی۔

 

فیصلے کے آخری ریمارکس یہ تھے: اسٹور انتظامیہ اور حاضرین پر جرمانے کی رقم لڑکے کو ادا کرتے ہوئے عدالت اس سے معافی

 طلب کرتی ہے۔

 

فیصلہ سننے کے بعد حاضرین تو اشک بار تھے ہی، اس لڑکے کی تو گویا ہچکیاں بندھ گئی تھیں اور وہ بار بار جج کو دیکھ رہا تھا۔۔  



اسے کہتے ہیں انسانیت، اسے کہتے ہیں انصاف۔۔۔


آپکا کیا خیال ہے ؟؟