سُکون ہمارے اندر ہوتا ہے

Peace is within us


سُکون ہمارے اندر ہوتا ہے


طارق نہر کے کِنارے اُداس بیٹھا لہروں کو دیکھ رہا تھا کہ اُس کا ایک دوست وہاں سے گزرا۔ طارق پر نظر پڑی تو اُس کی خیر خیریت پوچھی، طارق نے اُس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا کہ یار سُکون کی تلاش میں ہوں، گھر میں بیوی بچّوں کے شور سے تنگ آگیا ہوں، اب تو کان بجنے لگے ہیں، ٹھیک سے دِکھائی نہیں دیتا اور نیند بھی پوری نہیں ہوتی، جب دل زیادہ گھبراتا ہے تو نَہْر کے کنارے پہنچ جاتا ہوں۔ 



دوست نے مشورہ دیا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک بڑے حکیم صاحب ہیں اُن سے ملو، شاید وہ تمہارا مسئلہ حل کر دیں۔ 


طارق اسی دن حکیم صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا، انہوں نے اِس کی نبض چیک کی اور کہنے لگے کہ تمہارا علاج ہوجائے گا مگر میں جو کہوں، وہ کرنا ہوگا۔


طارق نے ہامی بھرلی تو بڑے حکیم صاحب نے کہا: گھر میں مُرغا رکھ لو اور تین دن بعد میرے پاس آنا۔ طارق نے دل میں سوچا کہ پہلے ہی بچّوں کے شور سے تنگ ہوں اوپر سے مُرغا بھی! خیر! وہ گھر جاتے ہوئے کریم بخش سے مُرغا خرید کر لے گیا۔ مُرغا دیکھ کر بچّوں کی تو عید ہو گئی، وہ اُس کے ساتھ کھیلنے لگے۔ شور و غُل بڑھا تو طارق کی بے سُکونی بھی بڑھ گئی۔


تین دن بعد پھر حکیم صاحب کے پاس پہنچ گیا اور سارا حال کہہ سنایا، اب کی بار حکیم صاحب نے کہا: ایک کتّا بھی رکھ لو۔ طارق کے جی میں آئی کہ حکیم کو کَھری کَھری سُنا دے مگر مُروّتاً خاموش رہا اور کتّا لے جاکر گھر کے باہَر باندھ دیا، بچّوں کا شور تھمتا تو کتّا بھونکنے لگتا، وہ چپ ہوتا تو مُرغا شروع ہو جاتا۔ 


سخت بے سکونی کے عالَم میں تیسری بار حکیم صاحب سے ملا تو حکم ہوا: ایک گدھا بھی رکھ لو۔ مَرتا کیا نہ کرتا، اُدھار پر گدھا خریدا اور گھر لے جا کر کُھونٹے سے باندھ دیا۔ اب تو محلے والے بھی اُس کے گھر پہنچ گئے کہ کچھ ہمارا بھی خیال کرو، تمہارے جانوروں اور بچّوں نے مل کر ہمارا سُکون برباد کر رکھا ہے۔ 


طارق نے حکیم صاحب سے فریاد کی تو فرمایا: گدھے کو فوراً بیچ دو، آدھی قیمت پر گدھے سے جان چھڑائی تو اُس رات کچھ بہتر نیند آئی، دوسرے دن حکیم صاحب سے ملا تو حکم ہوا: کتّے کو بھی چلتا کرو، ایسا ہی کیا تو گھر میں مزید خاموشی ہوگئی۔


تیسرے دن  حکیم صاحب سے ملا تو فرمایا کہ مُرغا ذَبْح کرکے کھالو۔ طارق نے ہمّت کر کے کہا: حکیم صاحب! ٹھیک ہے میں نے آپ کی ہر بات ماننے کا وعدہ کیا تھا مگر مُرغا ہمارے گھر کی رونق بَن چکا ہے، بچّے اُس کی وجہ سے خوش ہیں، جب تک وہ بانگ نہ دے لگتا ہی نہیں کہ دن نکل آیا ہے، حکیم صاحب نے اپنا حکم دہرایا تو طارق نے بُجھے دل سے اِس پر بھی عمل کر ڈالا، پھر سے حکیم صاحب کے پاس پہنچا تو کہنے لگے: بیوی بچّوں سے جان چھڑاؤ اور اُن کو نانا کے گھر بھیج دو پھر تمہیں مکمل سُکون مل جائے گا۔ 


طارق رونے کے قریب ہوگیا اور کہنے لگا کہ حکیم صاحب بس اتنا کافی ہے، میرا علاج مکمل ہوا، اب مجھے سُکون ہے۔

حکیم صاحب نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے: میں تمہیں یہی سمجھانا چاہتا تھا کہ سُکون ہمارے اندر ہوتا ہے اور ہم اُسے باہَر تلاش کرتے رہتے ہیں، اگر ہم اپنا ذہن بنالیں تو خلافِ مزاج باتوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی بَن سکتی ہے ورنہ ہم بے سُکونی کا شِکار رہتے ہیں، جاؤ! اب اپنے گھر میں سُکون سے رہو ۔ ۔ ۔


:یہ بھی پڑھیں