فاتح خیبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ

Hazrat Ali ibn Abi Talib



  خلیفہ راشد، فاتح خیبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ

شجاعت کا روشن باب


سیدنا علی بن ابی طالب وہ عظیم شخصیت ہیں  جن کی ولادت  13 رجب 30 عام الفیل کو کعبہ  شریف کے اندر ہوئی ۔



  یہ آپ کی  ایسی فضیلت ہے کہ جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں۔اس حوالے سے سید نا علی المرتضی کے


 بے شمار القاب میں سے ایک  لقب مولود کعبہ بھی ہے جو کتابوں میں وارد ہوا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ


 کو یہ منفرد اعزاز بھی  حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانہ کعبہ اور  شہادت مسجد میں ہوئی۔


 

 

ولادت کے بعد آپ نے اپنی پہلی نگاہ جمال رسالت صلی اللہ علیہ و سلم  پر ڈالی۔  آپ نے سایہ


 نبوی میں پرورش پائی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔


  ولادت سے شہادت تک آپ کی مبارک زندگی خوشنودی رب اور رضائے الہی کے  لئے صرف ہوئی ۔


 


  

 آپ کا نام علی بن ابی طالب بن عبد المطلب قریشی ، ہاشمی ہے۔ آپ مسلمانوں کے امیر اور


 چوتھے خلیفہ  ہیں۔ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں ۔ حضرت علی کی


 والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہے۔ یہ پہلی  ہاشمیہ خاتون ہیں، جنہوں


 نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست   مبارک پر اسلام قبول کیا اور مدینہ منورہ کی


 طرف  ہجرت فرمائی ۔ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور  قبر میں اتارا۔


  


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الحسن تھی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں


 ابوتراب کی کنیت عطا فرمائی جو آپ کو سب سے زیادہ پسند تھی۔


 



قریش مکہ کی دعوت کے دوران جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے توحید کی دعوت پیش کی تو


 سب روسائے قریش انکار کرتے  ہوئے سر جھکائے بیٹھے رہے ۔


اس موقع پر رسول کریم   صلی اللہ علیہ و  سلم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سیدنا علی ابن ابی طالب


 کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اگرچہ میں کم عمر ہوں، میری پنڈلیاں  کمزور  اور آنکھیں دُکھنے 


آئی ہوئی ہیں لیکن میں اس پر صعوبت اور آزمائش میں آپ کا ساتھ  دوں گا۔



 اس قدر پر عزم اور حوصلہ مند  علی ابن ابی طالب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کے


 لیے اس وارفتگی کے اظہار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کو بچپن سے  ہی بصیرت کا 


وافر حصہ اور حکمت کا عظیم ذخیرہ عطا ہوا تھا ۔


 



امیر المؤمنین حضرت علی  رضی اللہ عنہ ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی طہارت و


 پاکیزگی کی گواہی کے لئے قرآن مجید میں آیت تطہیر نازل ہوئی ۔قرآن مجید میں اس کے علاوہ


 بھی متعدد آیات آپ کی شان میں نازل ہوئیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے، علی


   تمہیں  مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو حضرت موسیٰ سے تھی۔(صحیح بخاری)




رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے آپ کو دین و دنیا میں اپنا بھائی قرار دیا ۔ آپ فرماتے تھے کہ


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  مجھے علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے اور میں نے ہر باب سے


 ہزار ہزار باب مزید سیکھ لئے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے خود کو علم و


 حکمت کا شہر اور حضرت علی کواس شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔


 


آپ کو سفر و حضر میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ غزوات میں


 اپنی بہادری، شجاعت کے  ساتھ ساتھ  سپاہ سالاری کر کے اپنی قائدانہ صلاحیت کا لوہا منوایا ۔



 آپ بہت بڑے زاہد و عابد اور عالم و فقیہ اور فصیح و بلیغ خطیب تھے۔علم، حلم، عبادت


خطابت، شجاعت، ریاضت،تلاوت،  ہر  ایک وصف گویا منفر د تھا۔



 نہج البلاغہ آپ کے کلام  خطبات اور خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم اور قابل قدر


 مجموعہ ہے کہ اپنے پرائے سب  ہی اس کی عظمت و بلندی کے معترف  ہیں۔


 


رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اپنے دل کی ٹھنڈک ، خاتون جنت سيدة نساء العالمين حضرت


 فاطمۃ الزہراء کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ، اگر علی نہ ہوتے


 تو کائنات میں خاتون جنت فاطمۃ الزہراء کا ہمسراور برابر کوئی  موجود نہ تھا۔



یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت علی و حضرت فاطمۃ الزہراء کو ایک دوسرے کے لئے پیدا فرمایا اور


 پھر دین مبین کی خدمت و بقا کی خاطر  اللہ تعالیٰ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ کو امام حسن و


 امام حسین اور حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم کی صورت میں اولا د عطا کی۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  اکثر فرمایا کرتےتھے کہ  یہ میرے دونوں بیٹے حسن و حسین جنتی


 نوجوانوں کے سردار ہیں، ان کے والد علی ان دونوں سے افضل ہیں۔



 اس حدیث میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت علی اور حسنین کریمین کی عظمت بیان


 کرتے ہوئے ان کے مقام و منزلت کو بیان فرمایا۔




  جگر گوشہ رسول ، خاتون جنت سیدہ  فاطمہ اور حضرت علی کی زندگی ایک بے مثال نمونہ تھی کہ


 میاں بیوی کس طرح ایک دوسرے کے شریک حیات ثابت ہو سکتے ہیں۔ باب العلم کی زندگی


 ہر رخ سے ایک آفتاب درخشندہ ہے۔ 



  

حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے عہد نبوی کے غزوات میں جرات اور شجاعت کی وہ تاریخ رقم کی


 جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے  گی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ غزوہ خیبر میں اہل ایمان کا سامنا


 اپنے بدترین دشمن یہودیوں سے تھا۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا   جس کی جنگی اور عسکری لحاظ سے


 کافی اہمیت تھی، جس کا سردار مرحب عرب کے نامور  بہادروں میں شمار ہوتا تھا ۔


 


جب خیبر کا قلعہ کسی طور بھی فتح نہیں ہو رہا تھا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم   نے فرمایا: کل میں


 اس بہادر شخص کو علم دوں گا،  جس سے اللہ اور اس کا رسول  صلی اللہ علیہ و سلم محبت کرتے ہیں


 اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول  سے محبت کرتا ہے۔ اللہ اس  کے ہاتھ پر خیبر فتح عطا فرمائے گا


 اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آئے گا ، جب تک خیبر فتح نہ ہو۔  ( صحیح بخاری )


 

یہ اعلان بڑی اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  کی


 خوشنودی کی سند تھی۔ بعد ازاں آپ  نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو علم عطا فرمایا۔




 خیبر کے قموص نامی قلعے میں جنگ خیبر کے آخری اور اختتامی مرحلے پر  یہودیوں کا نام ور پہلوان


 مرحب جسے اپنی بہادری پر بہت ناز تھا۔ وہ بڑے رعب کے ساتھ نکلا۔ یہ شعر پڑھتے ہوئے


حملے کے لئے آگے بڑھا   


 

خیبر خوب جانتا ہے کہ میں ”مرحب  ہوں۔ اسلحہ پوش ہوں، بہت ہی بہادر اور تجربہ کار  ہوں۔




 حضرت علی نے اس کے جواب میں یہ شعر پڑھا

  

میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر ( شیر ) رکھا ہے۔ میں شیر کی طرح ہیبت ناک ہوں ۔ 


 

 

مرحب نے بڑے غرور کے ساتھ آگے بڑھ کر شیر خدا پر اپنی تلوار سے وار کیا، مگر آپ نے


 ایسا پینترا بدلا کہ مرحب کا وار خالی گیا۔ پھر آپ نے بڑھ کر اس کے سر پر اس زور کی تلوار ماری


 کہ ایک ہی ضرب سے ذوالفقار حیدری مرحب  کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر  آئی اور مرحب 


زمین پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔ مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر  اس  کی فوج شیر خدا 


حضرت علی پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر  گرتی تھی جس سے


 صفوں کی  صفیں الٹ گئیں اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر کٹ گئے ۔


 


 اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علی کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ نے آگے بڑھ کر قلعہ


 قموص کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور کواڑ کو  ڈھال بنا کر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔


 



 بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ  ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کے محب بھی ہیں اور محبوب


 بھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ  کے ہاتھ پر خیبر کی فتح عطا فرمائی اور قیامت تک کے لئے اللہ  تعالیٰ نے 


آپ کو فاتح خیبر کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا۔یہ وہ  فتح عظیم ہے جس نے  پورے جزیرۃ  العرب


 میں یہودیوں کی جنگی طاقت کا جنازہ نکال دیا۔  اس کے بعد ہی مکہ بھی فتح ہو گیا۔ اس لئے یہ ایک مسلمہ


 حقیقت ہے کہ فاتح خیبر کی ذات سے  اسلامی فتوحات کا سلسلہ وابستہ ہے۔


  


نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمایا

 

جس نے علی سے محبت کی ، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ، اس نے رب


 العزت سے محبت کی اور جس  نے علی سے بغض رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے


 مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ رب العزت سے بغض رکھا ۔


 

  

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: علم کے دس حصے ہیں۔ ان میں سے نو حصے حضرت علی کو دیے


 گئے اور دسویں حصے میں بھی وہ  لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بات


 حضرت علی سے ثابت ہو جاتی ہے تو ہم اسے چھوڑ کر دوسری  بات اختیار ہی نہیں کرتے ۔


اکابر اور جید صحابہ کرام مشکل و دقیق مسائل میں حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے۔


  

 

 رمضا ن کے مہینے میں  نماز فجر کے وقت حضرت علی  رضی اللہ عنہ سجدے میں تھے کہ ابن ملجم نے  


 آپ پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا، آپ کی داڑھی اور محراب خون سے


 رنگین ہو گئی ۔ اس وقت مسجد کوفہ میں امیر المومنین نے یہ جملہ ادا  کیا۔ " رب کعبہ کی قسم علی


 کامیاب ہو گیا" ۔ زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نماز صبح کے وقت آپ کی


 شہادت  ہوئی ۔


 


یوں شیر خدا سیدنا علی المرتضی  رضی اللہ عنہ کا ظاہری سفر خانہ کعبہ میں ولادت سے شروع ہو کر


 مسجد کوفہ میں شہادت تک ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا کی خاطر بسر ہو کر رہتی دنیا تک


 مینارہ نور بن گیا۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہر نجف  اشرف میں ہے۔


  



سیدنا علی رضی اللہ عنہ  فقاہت، عدالت، سیاست، عدل و انصاف کے خاص جواہر سے متصف


 تھے ، یہی وجہ تھی سید نا ابو بکر  صدیق ، سیدنا فاروق اعظم اور سیدنا عثمان غنی کے دور ہائے


 خلافت میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔ سیدنا علی رضی  اللہ عنہ  اتحاد امت کے بہت


 بڑے داعی اور علم بردار تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے کردار 


 اور تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امت مسلمہ میں وحدت ویگانگت کو فروغ دیا جائے ۔




:مزید پڑھیں