سلطان محمود غزنوی اور ہندو شہزادی کی کہانی

Sultan Mahmud Ghaznavi and the Hindu princess story

 

سلطان محمود غزنوی اور ہندو شہزادی کی کہانی  



 سلطان محمود غزنوی اپنے کچھ سپہ سالاروں کیساتھ جنگل کے راستہ سے بھٹک گئے۔ سورج   تیزی سے ڈھل رہا تھا اور  سلطان جنگل میں راستہ تلاش کرنے میں سرگرداں تھے کہ ایک ہندو دھرم کی شہزادی پر نگاہ پڑی جو اپنی کنیز کیساتھ شاید شکار پر نکلی تھی۔


   

 اکیلی شہزادی اور اسکی کنیز اس چیز سے  بے خبر دریا کے کنارے پاؤں ڈبوۓ بیٹھیں تھیں کہ انکے پیچھے ایک جنگلی ریچھ پہنچ چکا ہے۔

   

جب تک  سلطان کا تیر اس کے حلق سے آر پار ہوتا وہ ریچھ شہزادی کی کنیز کو ایک ہاتھ کے پنجے سے کاٹ  چکا تھا ۔

 

اس سے پہلے کہ شہزادی اپنا ترکش سنبھالتی اور تیر کمان میں لگاتی  شاید بہت دیر ہو جاتی۔  سلطان محمود غزنوی نے  پےدر پے تین تیر اس جنگلی درندے پر دے مارے جس سے وہ ڈھیر ہو گیا۔

    

شہزادی کو یہ جاننے میں مشکل نہ ہوئی کہ اس مہارت اور بہادری کا مظاہرہ کوئی جنگجو سپہ سالار ہی کر سکتا ہے۔

 

  

شہزادی سلطان  کی طرف متوجہ ہوئی اور  اظہار تشکر کے لیے اپنا تعارف کرواتے ہوئی بولی ۔میرا نام سمرتی ہے۔

میں جے پور ریاست کے راجہ کی اکلوتی بیٹی ہوں، میری جان بچانے کا شکریہ ۔میں تمھیں اپنےوالد سے کہہ کرفوج میں کوئی اعلیٰ عہدہ دلا دوں گی۔ ویسے تم ہماری فوج کے سپاہی لگتے نہیں ہو بتاؤ کہاں سے تعلق ہے  تمہارا۔۔۔۔؟؟

 

  

سمرتی شاید یہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے سامنے کوئی معمولی سپاہی نہیں بلکہ اس وقت کی سب سے طاقتور اسلامی لشکرکے سربراہِ اعلیٰ سلطان محمود غزنوی ہیں، جنکے نام سے ہی ہندو راجاؤں  کے حلق خشک ہو جاتے ہیں۔


   

سلطان نے مختصراً اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا, میں کسی اور فوج کا سپاہی ہوں۔

   

چلئے محترمہ میں آپکو کسی محفوظ مقام پر پہنچادوں ،آپ میرے پیچھے   چلتی جائیں اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ راستہ نہ ملا تو شاید اسی جنگل میں رات بسر کرنی پڑے گی۔

   

 شہزادی سمرتی جان چکی تھی کہ یہ شخص لالچ اور خوف سے پاک ہے۔ وہ سلطان کی نظروں میں حیاء دیکھ کر خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی۔


  

 جنگل کی خاردار جھاڑیوں کی وجہ سے شہزادی کا لباس  مختلف جگہ سے چھلنی ہو چکا تھا  اور شہزادی تھکاوٹ سےچور ہو چکی تھی۔

 

سلطان نے شہزادی کو ایک سخت پتھروں اور درختوں کی اوٹ کیطرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا


 شہزادی، آپ ادھر آرام کر لیں، رات کی تاریکی بڑھ رہی ہے اور موسم میں بھی شدت  کے آثار ہیں۔ اندھیرے میں گھنے جنگل  میں مزید سفرکرنا دشوار ہے ۔صبح نکلیں گے  تو شاید میں آپکو کسی محفوظ مقام پر پہنچا سکوں۔

 

  سمرتی کے پاس سلطان پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ   تھا۔ سلطان نے محسوس کیا شہزادی اپنے بیش قیمت مگر قدرے باریک لباس میں جنگل کی ٹھنڈی رات شاید گزار نہ سکے۔ سلطان نے اپنی موٹی  چادر شہزادی کیطرف اچھال دی اور معنیٰ خیز نظروں سے شہزادی کو دیکھا جیسے کہہ رہے ہو یہ اوڑھ لیں۔شہزادی نے بلا جھجک چادر اوڑھی اور ٹیک لگا کر درختوں کی اوٹ میں لیٹ گئی۔ اسکی نظریں سلطان کے چہرے کی طرف جمی ہوئی تھیں

 

 جو نظریں جھکاۓ ایک قریب پڑے بڑے پتھر پر بیٹھ کر آگ جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بالآخر آگ جل گئی ،اسکی روشنی میں سلطان کا نورانی اور بھرا ہوا وجاہت والا چہرہ  چمک رہا تھا۔


  

سلطان نے  مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھنے لگے، شہزادی کو جھٹکا لگا، اوہ یہ تو مسلمان لگتے ہیں۔

  

ایک دفعہ شہزادی کانپ گئ۔ کہیں  یہ غزنی کے لشکر سے تو نہیں جو  گاۓ بھینس بکری سب کا مانس کھاتے ہیں، یہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔


 لیکن اگلے ہی لمحے شہزادی اب تک سلطان کے ساتھ گزرے وقت کو یاد  کرنے لگی ۔اگر یہ اتنا ہی سفاک اور ظالم ہوتا تومجھے ریچھ سے نہ بچاتا۔ نا چاہتے ہوۓ بھی شہزادی کا دل پھر سے اطمینان و یقین سے بھر گیا۔



سلطان نماز کے بعد دعا کرتے وقت زارو قطار رونے لگے۔ روتے روتے سلطان نے اپنے خنجر کی نوک اپنے پاؤں کے انگوٹھے پر رکھ کر اسکو دبا دیا، شہزادی دیکھتی رہی کہ یہ جوان  مرد مجھ سے گفتگو میں بے تکلف نہیں ہونا چاہتا۔ 





صبح ہوئی تو سلطان نے شہزادی سے کہا اب ہمیں نکلنا چاہیے۔ کچھ دور جا کر سلطان کو ایک سفید پتھر پڑا ملا جو سلطان کے سپاہی نشانی چھوڑ گئے تھے کہ راستہ اسی طرف ہے۔ یہ اس زمانے  کا ایک طریقہ تھا کہ جنگل میں پتھر چھوڑتے جاتے  تھےتا کہ پیچھے آنے والا راستہ جان سکے کہ گزرنے والا کہاں سے  گزرا ہے۔ 




بالآخر شہزادی اور سلطان ایک ہموار راستہ پر آ پہنچے ۔کچھ دور ایک چھوٹے سے گاؤں کے آثار نظر آ رہے تھے۔

 سلطان نے کہا یہ آپکی ریاست کی حدود کا ہی گاؤں معلوم پڑتا ہے ۔

شہزادی  بولی ،ہاں دیکھتے ہیں ۔گاؤں پہنچنے پر شہزادی نے گاؤں کے مکھیاء کو بلاوا بھیج دیا۔ مکھیاء اپنے کچھ ساتھیوں سمیت حاضر ہوا،  شہزادی نے کہا ہمیں دو برق رفتار گھوڑے دے جائیں اور کچھ خشک اناج اس سپاہی کو دیا جاۓ 




شہزادی نے سلطان سے کہا، اجنبی ہمیں بہت حیرت ہوئی ہے تم پر، آخر تم کس مٹی کے بنے ہو، ساری رات تم اپنے خنجر سے زخم کریدتے رہے اور میری طرف کوئی توجہ نہ دی۔ تم  چاہو تو ہمارے ساتھ محل چلو ،ہم تمھیں اپنی جان بچانے کے بدلہ میں انعام و اکرام سے بھر دیں گے۔ 




سلطان نے گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے کہا ،شہزادی صاحبہ زخم اس لئے کریدتا رہا   تھا کہ آپکا حُسن میرے ایمان کو زَد نہ پہنچاۓ اور میری توجہ میرے درد کی طرف رہے آپکی  طرف نہ بڑھے۔



شہزادی بولی، کیا تمھیں یہ موقعہ گنوانا چاہئیے تھا ؟ہم سے خلوت میں ملاقات کیلئے لوگ اپنی ریاستیں دستبردار کرنے کو تیار ہیں۔



سلطان نے کہا، شہزادی میں مسلمان ہوں اور محمد مصطفیٰ ﷺ کا غلام ہوں۔ میری نظر آپکے جسم پر نہیں بلکہ خود میری اپنی روح پر تھی، شاید  میرے جسم سے گناہ کا داغ دھل جاتا لیکن میری روح پر اس گناہ کا داغ لیکر میں اپنے نبی پاک ﷺ کے سامنے کیسے پیش ہوتا۔۔۔۔؟ مجھے یہ گوارہ نہیں تھا  کیونکہ الحمد للہ میں ایک سچّا مسلمان ہوں۔




شہزادی یہ جواب سن کر اس سپاہی کی اپنے مذہب اسلام کیساتھ لگاؤ،   محبت اور وفاداری دیکھ کر انکے کردار سےمتاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی۔ جیسے اسکا دل اسی اجنبی کے مذہب   اورزندگی میں شامل ہونے کو بیقرار ہو۔ 


یہ کہہ کر سلطان نے اجازت چاہی۔۔۔۔۔ 


شہزادی بولی،  اپنا اور اپنی فوج کا نام تو بتاتے جاؤ ہم یاد رکھیں گے۔ 

سلطان نے چادر سے نقاب اوڑھا ،تیر ترکش کندھے پر ڈالے  ،تلوار اپنے میان میں ڈالی اور گھوڑے کی رکابیں  پکڑتے ہوے بولے۔۔۔۔۔۔۔




شہزادی میرا نام  سلطان محمود غزنوی ہے اور میں ہی غزنی کی عظیم الشان فوج کا سپہ سالار اور سلطان ہوں۔ یہ کہہ کر سلطان نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور سرپٹ دوڑتے ہوۓ آنکھوں  سے اوجھل ہو گئے۔


سبحان اللہ ماشاءاللہ۔۔


یہ تھے اللہ و رسولﷺ کے سچے وفادار۔ ایسے تھے اسلامی سلطنت کے حکمران، اور مسلمان بادشاہ  اور کامل  ایمان والے ۔آج انکے نقشِ قدمِ پاک ہم سب کیلئے راہِ نجات ہیں۔



:یہ بھی پڑھیں