شداد اور اس کی جنت کا انجام

Story of Shaddad's Paradise



شداد کی جنت ، شداد  پر احسناتِ الٰہی اور اس کا کفر


فتح القدیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا تمہیں کسی انسان کی روح قبض کرتے وقت کبھی رحم بھی آیا ہے؟ 


ملک الموت نے عرض کیا۔ یا اللہ عزوجل ! مجھ کو دو انسانوں کی جان نکالنے میں ملال ہوا تھا ، اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ہرگز ان کی جان نہ نکالتا۔



ایک اس وقت جب نیلے بیکراں سمندر میں ایک چھوٹا سا جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جہاز میں بہت سارےمسافروں کے علاوہ ایک عورت ایسی بھی تھی جس کی ہاں ا بھی اسی وقت بچہ پیدا ہونےوالا تھا۔تیرے حکم سے میں نےپرسکون سمندر میں اچانک ہی لہریں اٹھا دیں اور ساتھ ہی ہوا بھی تیز کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوانے طوفان کا رخ اختیار کیا اور سمندر سے اٹھنے والی لہروں نے اسے ٹکراٹکرا کر اسے ہچکولے کھانے پر مجبور کر دیا۔



سبھی مسافر حیران وپریشان سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک ہی موسم نے اپنا مزاج کیسے بدل لیا۔ طوفان بڑھتا جا رہا تھااور مسافر زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن تجھ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا کے تیز جھکڑوں اور سمندر کی طاقتور موجوںنے جہاز کو توڑ کر ٹکڑوں میں بدل دیا۔ جن مسافروں کو تیرنا آتا تھا۔ وہ تیر کر اپنی جان بچانے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے  لیکن میں نے تیرے حکم سے اکثر کی روحیں قبض کرلیں۔



وہ عورت جس کو بچہ پیدا ہونے والا تھا ، جہاز ڈوبنے کے خوف اور طوفان کی دہشت سے بے ہوش ہو چکی تھی اور جہاز کے ٹوٹے ہوئے ایک تختے پر پڑی ہوئی تھی او ریہ تختہ بے اتھاہ سمندر میں تیز لہروں کے سہارے بہتا چلا جا رہا تھا اور اسی حالت میں عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا اور ولادت کے اگلے ہی لمحے مجھے تیری طرف سے حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کرلی جائے۔حکم کی تعمیل پلک جھپکنے سے قبل ہوگئی۔ اس وقت اس عورت کی روح قبض کرتے ہوئے مجھے پر رقت طاری ہوئی تھی۔



اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جانتے ہو بعد میں اس بچے کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟



 حضرت عزرائیل علیہ السلام نے فرمایا ۔ میرا رب عزوجل ہی تمام جہانوں کے معاملات سے آگاہ ہے۔



 اللہ عزوجل نے ارشاد  فرمایا کہ میں نے اس پر اپنی بے پناہ نوازشات فرمائیں اوراس کو دنیا کا بادشاہ بنا یا لیکن بجائے میرا شکر گزار بندہ بننے کے اس  نے کفر کی راہ اختیار کی۔



اس بچے کا واقعہ کچھ یوں منقول ہے کہ وہ بچہ بے سروسامانی کی حالت میں اکیلا ہی تختے پر پڑا رہا اور وہ تختہ کئی دنوں بعد اللہ کے حکم سے کنارے پر آلگا۔ کنارے پر موجود ایک مچھیرے نے جو یہ دل سوز نظارہ دیکھا کہ ایک بچہ تختے پر پڑا کنارے کی طرف آرہا ہے اور ایک عورت اس پر مری پڑی ہے تو اس نے لپک کر بچے کو اٹھا لیا اور میت کو وہی قریب میں زمین کھو د کر  دفن کر کے بچے کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔



مچھیرا جب بچہ لیکر گھر پہنچا تو بچے کو دیکھ کر اس کی بیوی بہت خوش ہوئی کیونکہ اس کی یہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور انہوںنے بچے کا نام" شداد "رکھا۔ مچھیرا اور اس کی بیوی اس بچے کی لاڈو پیار سے پرورش کرنے لگے یہاں تک کہ وہ سات برس کا  ہوگیا۔



 اتنی کم عمر میں شداد نہایت ہی ذہین ، عقل مند اور چالاک بھی تھا۔ ایک روز گاؤں کے باہر شداد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی شور اٹھا کہ بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔



یہ سنتے ہی سارے بچے بادشاہ کے ڈر سے بھاگئے لیکن شداد وہی قریب کے ایک ٹیلے میں چھپ کر بادشاہ کی سواری اور شاہی لشکر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام لشکر گزر گیا اور بادشاہ کی سواری گزرنے کے بعد کچھ پیادے، گری پڑی ہوئی چیزوں  کی خبر گیری کے واسطے لشکر کے پیچھے پیچھے آئے۔ ان پیادوں میں سے ایک پیادے نے راستے میں ایک پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔



 اس نے جب پوٹلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں ایک سرمے دانی تھی۔ وہ پیادے اپنے ساتھیوں سے بولا۔


میں نے سرمہ پایا ہے.... اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے اپنی آنکھوں میں لگاؤں کیونکہ میری بنائی بھی کچھ کمزور ہو گئی ہے، شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔



اس کے ساتھیوں نے جواب دیا....اول تو راستے میں پڑی ہوئی چیز اٹھانا نہیں چاہئے۔ خیر اب تو نے اٹھا ہی لی ہے تو بغیرآزمائے ہوئے آنکھوں میں ہر گز مت لگانا کہیں فائدے کے اور نقصان نہ ہوجائے۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھ۔ یہ سن کر پیادے نے ادھر اُدھر دیکھا تو اسے شداد ایک ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا نظر آیا۔ پیادے نے اسے بڑے پیار سے بلایا اور کہا۔ آبیٹا ! ہم تیری آنکھوں میں سرمہ لگادیں تاکہ تیری آنکھیں اچھی لگیں۔



شدادنے پیادے سے سرمے دانی اور سلائی لیکر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرمہ لگاتے ہی شداد کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور اسے زمین کے اندر چھپے ہوئے تمام خزانے بالکل اسی طرح سے نظر آنے لگے جیسے صاف شفاف پانی میں چیزیں نظر آتی  ہیں۔



 یہ اللہ کی نوازشات میں سے ایک بہت بڑی نوازش تھی۔ شداد حد سے زیادہ چالاک تو تھا ہی لہٰذا اپنی چالاکی اور عقل مندی سے چلایا.... اے خانہ خراب ظالموں !.... تم نے میری آنکھیں پھوڑ دیں.... ہائے میں اندھا ہو گیا.... یہ میری آنکھ میں کیسا زہر لگوا دیا .... ہائے اب میں بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں گا اور تم کو سزا دلواؤنگا ۔



پیادوں نے جو یہ سنا تو مارے خوف کے سرمہ وہیں چھوڑ ا، گرتے پڑتے اپنی جان بچانے بھاگ کھڑے ہوئے اورشداد اپنی چالاکی اور پیادوں کی بزدلی پر خوب ہنسا اورسرمہ دانی لیکر اپنے گھر آگیا اور اپنے باپ سے ساراواقعہ بیان کر دیا ۔ مچھیرا اپنے بیٹے کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوا اور بولا۔ ”رات کو جب سب لوگ سو جائیں گے تو ہم اپنے بھروسے کے مزدوروں کے ساتھ پھاؤڑے وغیرہ لیکر چلیں گے اور جہاں بھی تجھ کو خزانے نظر آئیں گے ہم وہاں سے کھود کر نکال لیں گےاور اپنے گدھوں اور خچروں پر لاد کر خزانہ لے آئیں گے۔



اس طرح شداد نے بہت سا مال و دولت اورجواہر اکٹھے کر لئے تھے اور سب گاؤں والوں کو آئے دن دعوتیں کر کر کے اپنا ہم درداور رفیق بنا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد جب شداد جوانی کو پہنچا تو شداد نے اس گاؤں کے سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ پر خود سردار بن بیٹھا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر دوسرے حاکموں اور فوجداروں کو پہنچی تو انہوں نے شداد کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرتے ، شداد نے بھی اپنی ایک فوج تیار کر لی اور ان حاکموں فوجداروں سے مقابلہ کیا اور اپنی ذہانت اور بہادری سے سب حاکموں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا اور اس طرح سے بڑھتے بڑھتے شداد زمین کے بڑے حصہ پر قابض بن کر اس  کا بادشاہ بن بیٹھا اور سارے جہاں کے حاکم، امراءاور سردار اس کے مطیع وفرمابردار ہوئے۔



شداد نے بے پناہ خزانے جمع کرلئے تھے اور اپنا لشکر اس قدر وسیع اور مضبوط بنا لیا تھا کہ  ہر طرف اسی کا حکم چلتا تھا۔ اپنی طاقت اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے شداد نے اپنی سلطنت کو کمال عروج بخشا تھا اور روئے زمین کے کسی انسان کو اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ بہ پناہ خزانوں اور مال و دولت ، وسیع و عریض سلطنت ، عظیم الشان لاؤ لشکر اور اپنی ذہانت و طاقت کی وجہ سے شداد اب غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیاتھا اور اس نے نعوز باللہ دعویٰ خدائی کر ڈالا۔



عالموں اور واعظوں نے اس ملعون کو بہت نصیحتیں کیں اور حق تعالیٰ کے خوف اور اس کی عبادت کی طرف رغبت دلانے کی بہت کوششیں کیں لیکن شداد کا کہنا تھا کہ دولت و حکومت جاہ ثروت، عزت وشہرت اور حشمت سب کچھ میرے پاس موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی خدا کی اطاعت کروں۔



علماء  نے سمجھایا کہ یہ سب ملک و دولت فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں جنت عطاکرینگے جو اس دنیا سے کروڑہا درجے بہتر ہوگی۔



شداد نے پوچھا کہ اس جنت میں کیا خوبی ہے ؟تو عالموں نے جو کچھ بھی خوبیاں اور تعریفیں جنت الفردوس کی پڑھی اور سنیں تھیں وہ سب اس کے سامنے بیان کر دیں۔ علماء  کی باتیں سنکر شداد نے حقارت سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ مجھے اس جنت کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی مجھے وہ جنت چاہئے کیونکہ مجھ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ میں اس سے بھی اچھی جنت اس دنیا میں بنا سکتا ہوں۔


اس کے بعد اس نے اپنی جنت بنانے کا حکم نامہ جاری کیا۔



چناچہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ اپنی سلطنت میں سب حکمرانوں کو یہ حکم دیا کہ سونے چاندی کی کانوں سے اینٹیں بنوا کر بھیجیں اور کوہِ عدن کے متصل ایک مربع شہر جو دس کوس چوڑا اور دس کوس لمبا ہو، بنانے کاحکم دیا۔ اس کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے قریب پہنچا دیں۔



 پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار  محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔



پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سےسجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔



شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور عنبر و گلاب سے صیقل کیا گیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔



بازاروں اور دکانوں کو پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچا کریں۔



بارہ سال کی مدت میں یہ شہر جب اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوگیا تو تمام امرا و ارکان ِ دولت کو حکم دیا کہ سب اسی میں آباد ہوجائیں۔ پھر شدّاد خود، اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ انتہائی تکبر اور غرور کے ساتھ اس شہر کی طرف روانہ ہوا۔ بعض علما و مصلحین کو بھی ساتھ لیا اور راستے بھر اُن سے تمسخر کرتے ہوئے ان سے کہتارہا کہ ایسی جنت کے لیے تم مجھے کسی اور کے آگے  جھکنے اور ذلیل ہونے کا کہہ رہے تھے! میری قدرت و دولت تم نے دیکھ لی؟


 

جب قریب پہنچا تو تمام شہر والے اس کے استقبال کے لیے شہر کے دروازے کے باہر آگئے اور اس پر زروجواہر نچھاور کرنے  لگے۔ اسی نازو ادا سے چلتے ہوئے جب شہر کے دروازے پر پہنچا تو روایت ہے کہ ابھی اس نے گھوڑے کی رکاب سے ایک  پاؤں نکال کر دروازے کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھاکہ اس نے وہاں پہلے سے ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا 


تُو کون ہے؟


اس نے کہا میں ملک الموت ہوں۔


پوچھا، کیوں آئے ہو؟ 


اس نے کہا، تیری جان لینے۔


 شداد نے کہا مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لوں۔


 جواب ملا، مجھ کو حکم نہیں۔


 کہا، چلو اس قدر ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے پر سے اتر آؤں۔


 جواب ملا، اس کی بھی اجازت نہیں۔



چناں چہ ابھی شداد کا  ایک پاؤں رکاب میں اور دوسرا چوکھٹ پر ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔



پھر حضرت جبرائیل ؑنے بڑے زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ اسی وقت تمام شہر مع اپنی عالی شان سجاوٹوں کے ایسا زمین میں سمایا کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔



 قرآن پاک میں اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے


ترجمہ: وہ جو اِرم تھے بڑے ستونوں والے اور شہروں سے اس کے مانند کوئی شہر شان دار نہ تھا۔


(پارہ 30۔ سورۃ فجر۔ آیت 7،8)




شداد اور اس کی جنت کا انجام



معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔


 مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس  شہر کی دیواروں کی ہوتی تھی ۔



 حضرت عبداللہ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے ۔اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔



 جب ہوش آیا تو سوچنے لگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ صلی اللہ علیہ


 وسلم نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟



اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس چل دیے۔ وہاں سے وہ سیدھے اُس وقت کے دارالخلافہ دمشق میں پہنچے۔ حضرت امیرمعاویہؓ وہاں موجود تھے۔ وہاں جو کچھ ماجرا ان کے ساتھ پیش آیا تھا، انھوں نے بیان کیا۔



 حضرت امیرمعاویہؓ نے ان سے پوچھا، وہ شہر آپ نے حالتِ بیداری میں دیکھا تھا کہ خواب میں؟



حضرت عبداللہؓ نے بتایا کہ بالکل بیداری میں دیکھا تھا۔ پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب  اتنے فاصلے پر ہے۔ ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں  وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔



حضرت امیرمعاویہؓ یہ ماجرا سننے کے بعد نہایت حیران ہوئے۔ پھر اہلِ علم حضرات سے اس بارے میں معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟



 علما نے بتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔



 علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ  چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔ جب حضرت امیرمعاویہؓ نے یہ ساری نشانیاں حضرت عبداللہؓ بن قلابہ میں دیکھیں تو فرمایا، واللہ یہ وہی شخص ہے۔



(بحوالہ:تذکرۃ الانبیا- تحقیق شاہ عبدالعزیز دہلوی) 



اس واقعہ میں عبرت کے بے شمارپہلو پوشیدہ ہیں۔ایک یہ کہ تکبر سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے کہ تکبر انسان کو تنزلی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔اور متکبر انسان نشان عبرت بن جاتا ہے۔کیونکہ تکبر جہنم میں لے جانے والا کام ہے تکبر صرف اللہ رب العزت کی ذات کے لئے ہی مخصوص ہے۔



دوسرا یہ کہ اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے ہمیشہ ڈرتے رہنے چاہیئے کہ نہ جانے ہمارے بارے میں اللہ کی خفیہ تدبیر کیا ہے۔ اللہ تعالی سے ہمیشہ عافیت طلب کرتے رہنا چاہیئے۔




:مزید پڑھیں