فانوس چور کی کہانی

Unemployment and poverty


ایک مشہور ڈاکو کچھ نیک لوگوں کی صحبت اور تبلیغ کی وجہ سے ڈاکے مارنے سے تائب ہو گیا۔ مگر پھر وقت 

کچھ ایسا آیا کہ بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے گھر میں نوبت فاقوں تک آن پہنچی، تو وہ ایک دن ایک 

بڑے ولی کے مزار پر گیا اور دعا مانگنے کے بعد دن دیہاڑے وہاں چھت پر لٹکتا انتہائی قیمتی فانوس اتار لایا ۔




مزار پر بیٹھے مجاور اسے جانتے تھے، کہ بہت بہادر، لڑاکا اور جنگجو ہے، سو اسے کچھ کہنے یا مزاحمت

  کرنے کی جرأت نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ 


ڈاکو نے وہ فانوس بیچ دیا ۔


مزار کے گدّی نشین اور مجاوروں نے ڈکیتی کا پرچہ کروا دیا اور کیس عدالت میں چلا گیا۔جج صاحب نے ڈاکو

 کو عدالت میں طلب کیا ۔


جج صاحب نے ڈاکو سے پوچھا : تم نے مزار سے فانوس اتارا ہے؟


 !ڈاکو نے کہا : جی اتارا ہے 


پوچھا : کیوں اتارا ہے؟


جواب دیا : کہ گھر میں نوبت فاقوں تک آ گئی تھی۔ میں صاحب مزار کے پاس حاضر ہوا، کہ میری حاجت

 روائی فرمائیں، صاحب مزار نے قبر کے اندر سے فرمایا : یہ فانوس تیرا ہوا، بیچ کر ضرورت پوری کر لے! سو 

میں نے فانوس اتار کر بیچ دیا اور اپنی ضرورت پوری کر لی ۔


جج صاحب نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر تؤقف کے بعد گدّی نشین اور مجاوروں سے مخاطب ہوئے کہ 

یا تو اپنا عقیدہ بدل لو اور لکھ کر دے دو، کہ ولی قبروں میں نہ سنتے ہیں اور نہ حاجت روائی کرتے ہیں، تو کیس

 آگے چلاتے ہیں۔


 یا پھر ہم آپ کے عقیدے کے مطابق مان لیتے ہیں، کہ ڈاکو ٹھیک کہتا ہے۔

 

مجاوروں نے کچھ دیر صلاح مشورے کے بعد بزنس بچا نے کا فیصلہ کیا اور اپنا کیس واپس لے لیا ۔




:یہ بھی پڑھیں