زمین سے دینار نکالنے والا نمـازی


story of worshiper who pulls dinars from the ground

زمین سے دینار نکالنے والا نمـازی

حضرت سیدنا ابوبکر بن فضل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اصرار کرکے ایک رومی دوست سے اسلام لانے کا سبب پوچھا تو اس نے بیان کیا ہمارے ملک پر مسلمانوں کا لشکر حملہ آور ہوا، جنگ ہوئی، کچھ لوگ ہمارے قتل ہوئے اور کچھ انکے۔ میں نے اکیلے دس مسلمانوں کو قیدی بنالیا۔ ملکِ روم میں میرا بہت بڑا گھر تھا، میں نے ان سب کو اپنے خادمین کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے ان کو بیڑیوں میں جکڑ کر خچروں پر سامان لادنے کے کام پر لگا دیا۔ 


ایک دن میں نے ان قیدیوں پر مقرر ایک خادم کو دیکھا کہ اس نے ایک قیدی سے کچھ لیا اور اس کو نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دیا۔ میں نے اس خادم کو پکڑ کر مارا اور پوچھا: بتاؤ! تم اس قیدی سے کیا لیتے ہو؟ تو اس نے بتایا یہ ہر نماز کے وقت مجھے ایک دینار یعنی سونے کا سکہ دیتا ہے۔


 میں نے پوچھا: کیا اس کے پاس دینار ہیں؟ تو اس نے بتایا نہیں۔ مگر جب یہ نماز سے فارغ ہوتا ہے، تو اپنا ہاتھ زمین پر مارتا اور اس سے ایک دینار نکال کر مجھے دے دیتا ہے۔


خادم کا بیان سن کر مجھے شوق ہوا کہ میں اس کی حقیقت جانوں لہذا جب دوسرا دن ہوا تو میں اس خادم کا یونیفارم پہن کر اس کی جگہ کھڑا ہوگیا۔


 جب ظہر کا وقت ہوا تو اس نے مجھے اشارہ کیاکہ مجھے نماز پڑھنے دے تو میں تجھے ایک دینار دوں گا۔ میں نے کہا میں دو دینار سے کم نہیں لوں گا۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے میں نے اسے کھول دیا۔ اس نے نماز پڑھی جب فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور وہاں سے نئے دو دینار نکال کر مجھے دے دیئے۔


جب عصر کا وقت ہوا تو دوبارہ میری طرف اشارہ کیا۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ میں پانچ دینار سے کم نہیں لوں گا۔ اس  مرتبہ بھی قیدی نے مطالبہ  مان لیا۔ پھر جب مغرب کا وقت ہوا تو اسی  طرح مجھے اشارہ کیا۔ تو میں نے کہا، میں دس دینار سے کم نہیں لوں گا۔ اس نے میری بات مان لی اور جب نماز سے فارغ ہوا، تو زمین سے دس دینار نکال کر مجھے دے دیئے اور پھر جب عشاء کی نماز کا وقت ہوا تو حسب عادت اس نے مجھے اشارہ کیا، میں نے کہا: میں بیس دینار سے کم نہیں لوں گا۔

پھر بھی اس نے میری بات تسلیم کرلی اور نماز سے فراغت پاکر اس نے زمین سے بیس دینار نکالے اور مجھے تھما کر کہنے لگا: جو مانگنا ہے مانگو! میرا مولا بہت غنی وکریم ہے، میں اس سے جو مانگوں گا وہ عطا کرے گا ۔

اس کا یہ معاملہ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ یہ ولی اللہ ہے۔ مجھ پر اس کا رعب  طاری ہوگیا اور میں نے اس کو زنجیروں سے آزاد کردیا اور وہ رات میں نے رو کر گزاری۔


جب صبح ہوئی تو میں نے اسے بلا کر اس کی تعظیم وتکریم کی، اسے اپنا پسندیدہ لباس پہنایا اور اختیار دیا کہ وہ چاہے تو ہمارے شہر میں عزت والے مکان یا محل میں رہے اور چاہے تو اپنے شہر چلا جائے۔ اس نے اپنے شہر جانا پسند کیا۔

میں نے ایک خچر منگوایا اور راستے کے اخراجات دے کر اسے خچر پر سوار کیا۔ اس نے مجھے دعا دی: اللہ پاک اپنے پسندیدہ دین پر تیرا خاتمہ فرمائے۔


اس کا یہ جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ میرے دل میں دین اسلام کی محبت گھر کر گئی، پھر میں نے اپنے دس غلام اس کے ہمراہ بھیجے انہیں حکم دیا کہ اسے نہایت احترام کے ساتھ لے جاؤ۔


پھر اس کو ایک دوات اور کاغذ دیا اور ایک نشانی مقرر کرلی کہ جب وہ بحفاظت تمام اپنے مقام پر پہنچ جائے تو وہ نشانی لکھ کر میری طرف بھیج دے۔


ہمارے اور اس کے شہر کے درمیان پانچ دن کا فاصلہ تھا۔ جب چھٹا دن آیا تو میرے خدام میرے پاس آئے، ان کے پاس رقعہ بھی تھا جس میں اس کا خط اور وہ علامت موجود تھی۔


 میں نے اپنے غلاموں سے جلدی پہنچنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ جب ہم اس کے ساتھ یہاں سے نکلے تو ہم کسی تھکاوٹ اور مشقت کے بغیر گھڑی بھر میں وہاں پہنچ گئے لیکن واپسی پر وہی سفر 5 دنوں میں طے ہوا۔ان کی یہ بات سنتے ہی میں نے پڑھا

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً حضرت محمد ﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں اور بے شک دینِ اسلام حق ہے۔

پھر میں روم سے نکل کر مسلمانوں کےشہر آگیا۔ (حکایتیں اور نصیحتیں ص 179)


 قارین  اگر آپ  کو یہ پوسٹ اچھی لگی ہے تواسےدوسروں تک پہنچائیے۔ ہو سکتا ہے اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے۔




:یہ بھی پڑھیں