حضرت عمر رضی اللہ عنہ: خلافت کا سنہری دور
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت اسلامی تاریخ کا ایک سنہری دور ہے، جس کی بنیاد انصاف، عدل، اور ترقی پر رکھی گئی۔ آپ کی خلافت 634 عیسوی سے 644 عیسوی تک جاری رہی، اور اس دوران اسلامی سلطنت نے بڑے پیمانے پر فتوحات حاصل کیں اور داخلی نظام میں کئی اہم اصلاحات کیں۔
خلافت کا آغاز
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کو خلافت کے لیے منتخب کیا گیا۔ آپ کی قیادت میں مسلمانوں کو نہ صرف داخلی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ باہر کی طاقتوں کے ساتھ بھی لڑائیوں میں کامیابی حاصل کرنی تھی۔
فتوحات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اہم فتوحات میں شامل ہیں:
- **ایران**: آپ نے ایک زبردست فوجی مہم کا آغاز کیا، جس نے سلطنت ساسانیہ کو شکست دی۔ معرکہ قادسیہ اور معرکہ نہاوند میں مسلمانوں کی فتح نے ایرانی سلطنت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
- **شام**: معرکہ یرموک میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں نے بازنطینی فوج کو شکست دی، جس کے نتیجے میں شام کا بیشتر علاقہ اسلامی خلافت کے زیر نگیں آ گیا۔
- **مصر**: آپ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مصر کی فتح کی، جو بعد میں ایک اہم اسلامی صوبہ بن گیا۔
انتظامی اصلاحات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکومت کے نظام کو منظم کرنے کے لیے کئی اصلاحات کیں:
- **عدل و انصاف**: آپ نے پہلی بار باقاعدہ عدالتوں کا قیام کیا اور قاضی مقرر کیے تاکہ لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لیے عدالتوں کا سہارا لے سکیں۔
- **مالیات**: آپ نے ایک منظم مالی نظام قائم کیا۔ زکات کی وصولی کے لیے خاص افسران مقرر کیے اور عوامی خزانے کا انتظام بہتر بنایا۔
- **نظامِ تعلیم**: آپ نے علم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مختلف تعلیمی ادارے قائم کیے، جہاں علم اور فنون کی تعلیم دی جاتی تھی۔
معاشرتی اصلاحات
آپ نے معاشرتی اصلاحات کے لیے بھی کئی اقدامات کیے:
- **عورتوں کے حقوق**: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین نافذ کیے۔ انہوں نے بیٹیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا اور ان کی وراثت میں حصہ دلانے کے لیے قوانین بنائے۔
- **غریبوں اور یتیموں کی مدد**: آپ نے یتیموں کی کفالت اور غریبوں کی مدد کے لیے کئی پروگرامز شروع کیے۔ آپ خود شہر کے بازاروں میں جا کر یہ دیکھتے تھے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں ہے۔
بعض اہم واقعات
**عزیز کا واقعہ**: ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ "عزیز" کو بازار سے نکال دو۔ انہوں نے اس شخص کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ اپنے بیٹے کا ذکر کر رہا تھا۔ حضرت عمر نے اس پر سختی سے کہا کہ "عزیز کا لفظ صرف اللہ کے لیے ہے، تم کسی انسان کو عزیز نہیں کہہ سکتے۔"
**فقہاء کا مشورہ**: آپ نے ایک بار فقہاء کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ "اگر کوئی شخص کسی چیز کا سوال کرے تو تم اس کا جواب کیوں نہ دو؟" آپ نے انہیں ہدایت کی کہ علم کو پھیلانا فرض ہے۔
**خود کو عذاب دینے کا واقعہ**: ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی نگرانی میں شہر کے گلیوں میں چل رہے تھے۔ ایک جگہ انہیں ایک عورت کی آہ و بکا سنائی دی۔ جب انہوں نے اس کے پاس جا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کے بچے بھوکے ہیں۔ حضرت عمر فوراً اپنی بیوی کے پاس گئے اور اپنی رقم لے کر واپس آئے۔ انہوں نے اس عورت کی مدد کی اور اس کی ضروریات پوری کیں۔
وفات
آپ کی خلافت کا اختتام 644 عیسوی میں ہوا، جب آپ کو ایک عیسائی غلام نے شہید کر دیا۔ آپ کی وفات اسلامی تاریخ میں ایک عظیم سانحہ مانا جاتا ہے۔ آپ کو دفن کرنے کے بعد آپ کی قبر کے قریب یہ الفاظ لکھے گئے: "یہ ہے عمر، جس نے اسلام کو مضبوط کیا۔"
نتیجہ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اسلامی تاریخ میں ایک مثالی دور مانا جاتا ہے، جس میں فتوحات، اصلاحات، اور عدل و انصاف کا ایک نیا معیار قائم ہوا۔ آپ کی قیادت نے اسلامی معاشرت کی بنیاد رکھی اور آپ کو "فاروق" کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جو کہ حق و باطل میں فرق کرنے والے کی نشانی ہے۔ آپ کی زندگی اور کارنامے آج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مشعل راہ ہیں۔